
کشمیر کے نام کے دو حصے ہیں ایک ’’کش‘‘ سے مراد ندی نالے اور’’ مر‘‘ سے مراد پہاڑ ہیں، قدیم روایت اور سروے کے مطابق کشمیر کی تاریخ10کروڑ سال پرانی ہے جس میں دیومالائی کا قصہ، کشب رشی، ہڑپہ، منجوداڑوکی تاریخ بھی شامل ہے۔ قدیمی تاریخ کے مطابق کشمیر کا پہلا حکمران گومندوان تھا اور اسی کے بعد جنگ مہابھارت کا قصہ ہے اور اس کے بعد پانڈوخاندان کے22حکمرانوں نے کشمیر پہ حکومت کی راجہ سندر سین اس خاندان کا آخری حکمران تھا اور یہ کشمیر پر بدھ مت کا دور تھا اور اسی دور میں326ع کو سکندراعظم بھی آیا تھا۔
1128ع میں راجہ جے سنگھ حکمران بنا جو ایک نیک دل حکمران تھا اس کے دور میں کشمیر میں خوشحالی آئی اس کی حکومت ختم ہونے کے200سال تک کوئی بھی حکومت قائم نہیں ہوسکی اوریہ دور افراتفری کا دور رہا اس کے بعد سردار رنچن نے 60ہزار کا لشکر لے کر کشمیر پر حملہ کیا اور اس نے لوٹ مار مچائی اور اس پر لداخ کے حکمران کرام سین نے اس پر حملہ کرکے اس کا لشکر تباہ وبرباد کیا۔ اس دور کے بعد مسلمانوں کا دور شروع ہوتاہے۔ حضرت شاہ ہمدان700سادات کے ساتھ کشمیر آئے اور37ہزار لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ شاہ صاحب کے ہاتھ پر 10ہزار ہندوئوں نے اسلام قبول کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ700پیروکاروں کے اس گروہ میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے تاکہ دور دراز علاقوںمیں کشمیر تک ایک محفوظ اور آسان سفر اور وادی میں آرام سے قیام کویقینی بنایاجاسکے، کیونکہ وہ ایک مخصوص طرز زندگی کے مطابق تھے، لیکن اسلام اور اسلامی ثقافت کو پھیلانے کے ان کے ایجنڈے کا حقیقت میں ترجمہ کرنے کیلئے۔ اس کے ساتھ ہی شاہ حمدان اپنی ایک بہت بڑی لائبریری لائے جسے ایک کتبور، لائبریرین سید کاظم نے برقرار رکھاتھا۔ان میں سے کچھ نے تبی اور حکیم کے نام سے بھی کام کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ انہیں مسلم دوائیوں کے بارے میں بھی کچھ معلومات ہیں، انہوں نے عرب دنیا سے وسطی ایشیائی ثقافت کی بھرپور ثقافت کے ساتھ اسلام کو ناکام بنادیا اور ایسی جگہ پر تجربہ کیا جو معاشرتی مداخلت کا بھوکا تھا، ایران سے کشمیر میں نئی علوم، ثقافت اور اقدار لانے کے اس عمل سے حمادانی نے کشمیر کے منفرد معاشرتی اور ثقافتی اور مذہبی ماحول کوفروغ دینے میں مدد فراہم کی، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں کچھ دستکاری موجود تھیں لیکن زوال پذیر تھیں۔ انہوں نے امیر کو حمام دری، کفش دوزی، درندگی، کباب پازی، حارثہ پازی، قلعہ پازی، گلکاری زرگری، احفی، قالین بافی، کاگازسازی، قلمدان سازی، اکاکی، سوزان کاری اور جلدکے تعارف کا سہرا دیا۔ مثال کے طور پر پہلی جماعت حمام ، خانقاہ موالہ میں قائم کی گئی تھی۔ یہ کشمیر کا واحد مقام ہے جہاں ایک منزل پہلی منزل پر چلتی ہے، عام طور پر حمام زمین کے فرش میں کام کرتے ہیں اس نے اسلامی اخلاق کو انسانی ترقی کے ذرائع کے طور پر استعمال کیا۔
1339 میں شاہ میر شاہ راج خاندان کا افتتاح کرتے ہوئے شاہ میر کشمیر کا پہلا مسلم حکمران بن گیا۔ اگلی پانچ صدیوں تک مسلم بادشاہوں نے کشمیر پر حکمرانی کی، جس میں مغل سلطنت بھی شامل ہے، جس نے1586سے1751تک حکومت کی، اس سال رنجیت سنگھ کے ماتحت سکھوں نے کشمیر کا الحاق کرلیا،1846میں پہلی اینگلو سکھ جنگ میں سکھ کی شکست کے بعد معاہدہ لاہور پر دستخط ہوئے اور معاہدہ امرتسرکے تحت انگریزوں سے اس خطے کی خریداری پر، جموں کے راجہ، گلاب سنگھ، کشمیر کانیا حکمران بن گیا۔ برطانیہ کے ولی عہد کی بالادستی(یااقتدار) کے تحت اس کی اولاد کی حکمرانی1847تک برقرار رہی، جب سابقہ سلطنت متنازعہ علاقہ بن گئی جس کا 49%حصہ پر ہندوستان نے زبردستی قبضہ کرلیا اور اب تک وہاں کے لوگوں پر ظلم وزیادتی کرتاہوا آرہاہے۔
کشمیر دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بناہواہے، پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتاہے۔ یہ علاقہ عالمی سطح پرمتنازعہ قرار دیاگیاہے۔
بھارت کے زیرقبضہ کشمیر میںمسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیرمیں مسلمان95فیصدجموںمیں28فیصد اورلداخ میں44فیصد ہیں۔ جموںمیں ہندو66فیصد اور لداخ میں بدھ50فیصد کے ساتھ اکثریت میں ہیں۔
فروری میںپاکستان اور آزادکشمیرمیں ایک بارپھر یوم یکجہتی کشمیر منایاجارہاہے اور اس دن کومنانے کا مقصد کشمیریوں کویہ یقین دہانی کراناہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام بھارتی تسلط کے خلاف جدوجہد میںمصروف کشمیری عوام کے ساتھ ہیں اور یہ کہ ان کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی سطح پر حمایت ہرقیمت پر جاری رکھی جائے گی ۔ کشمیری بھائی بہنیں جس طرح وہاں قربانیاں دے رہی ہیں اپنی زندگی کے خواب ، اپنے دل کی امنگیں، اپنے بچوں کا مستقبل، اپنے جگرگوشوں کی زندگیوں، اپنے سرکے سائبانوں کو جس طرح قربان ہوتے ہوئے دیکھ رہی اور دیکھ رہے ہیں ان کی ہمت دیکھ کر ناصرف ان پر رشک آتاہے بلکہ ان کے ایمان پر اور ان کی جدوجہد پر انہیں اپنے گلے لگانے کو دل چاہتاہے۔ زندگی کی تگ ودو میں جس طرح کشمیری ظلم وستم کا سامنا کررہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔پاکستانی عوام کا دل چاہتاہے کہ کشمیر کے آزاد ہونے کا وقت آجانا چاہیے اس کیلئے کسی بھی مدد اورحمایت کیلئے پاکستانی عوام 5فروری کویہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ہرحال میں کشمیریوں کا ساتھ دینگے اور بھارت کو ان کے ظلم وستم اور جبروتشدد کا منہ توڑجواب دینگے۔
کشمیر کی تاریخ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم سب جان لیں کہ کشمیر پر کتنے مذاہب کے حکمران ان پر مسلط ہوئے اور ان میں مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی۔خدا سے دعاہے کہ اب پھر کشمیرپاکستان کا حصہ بنے اور مسلمان حکمران اس کی باگ دوڑسنبھالیں۔