
سرسیداحمدخان اپنے بڑے بھائی سیدمحمدکے اخبار’’سیدالاخبار‘‘کے ادارتی امورمیں معاونت کرتے تھے،صحافت کی دنیامیں ان کا یہ تجربہ آگے چل کر ہندستان کے مسلمانوں کے بہت کام آیا۔ سرسید نے لندن میں قیام کے دنوں میں مشاہدہ کیا کہ اس شہرکے باشندے زندگی کے ہرشعبے میں خاصے باخبر رہتے ہیں۔انھوں نے بغور مطالعہ کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ وہاں کے تین اخباروں گارڈین، ٹیٹلر اوراسپیکٹیٹر نے عوامی شعورمیں اضافے کے لیے بنیادی کردار اداکیا ہے۔سرسید کے بقول ان کے دل میں بڑی شدت کے ساتھ یہ خواہش پیداہوئی کہ وطن واپس جاکر اردو میں اسی نوعیت کا ایک اخبار یا رسالہ جاری کیا جائے۔ بلاشبہ’’تہذیب الاخلاق‘‘نے سرسیدکی متعارف کردہ’’نئی روشنی ‘‘ کو( انگریزی لالٹینوں کی مدد سے ہی سہی )عوام تک ٹھیک ٹھیک پہنچادیا۔کچھ احباب کا خیال ہے کہ شایدصحافت نظریے کابوجھ اٹھانے سے قاصرہوتی ہے۔ہمیں اس سے اتفاق نہیں۔ بیسویں صدی کے اہم اخبارات ورسائل کا جائزہ لیاجائے تو ان کے اجرا کے پس منظر میں موجود مقاصدبالکل واضح ہیں۔مولانا ابوالکلام آزادکا ’’الہلال ‘‘ہویا’’البلاغ‘‘،مولانا محمدعلی جوہرکا ’’کامریڈ‘‘ ہو یامولانا ظفرعلی خاں کا ’’زمیندار‘‘ سب اس عہد کے عوام کے دل کی آوازاورجذبات کے ترجمان تھے۔ہماری صحافتی تاریخ کا حصہ بن جانے کے باوجودان اخبارات کی خدمات سے کسی کوانکار نہیں ہوگا۔قیام پاکستان کے بعد صحافت کی دنیامیں سب سے زیادہ نیک نامی حمیدنظامی اور مجیدنظامی کے حصے میں آئی ۔ حمیدنظامی مرحوم نے ’’نوائے وقت‘‘ کا اجرا کیا تو اس کی اشاعت کے پس منظر میںچندمثبت مقاصد کی ترجمانی ملتی ہے۔اس کا اندازہ اس کے آغاز کے دن یعنی ۲۳ ماچ ۱۹۴۰ء سے لگایاجاسکتاہے۔ اخبار نویسی کی تاریخ میں روزنامہ ’’نوائے وقت ‘‘کی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔حمیدنظامی مرحوم نے اس اخبار کا اجرا کیا اورمجیدنظامی مرحوم نے اسے بام عروج پرپہنچادیا۔
ہمارے بچپن کا دور تھا،غربت کے مارے چھوٹے سے قصبے میں کوئی بھی اخبار نہیں آتا تھا،گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے رشتے داروں کے ہاں ملتان جاتے توعلی الصبح ناشتے کی میزپربزرگوں کوایک ہی اخبار پڑھتے ہوئے دیکھتے۔ اس اخبار میں شامل بچوں کا صفحہ خاص طورپرہماری توجہ کا محور ہوتا ،بچوں کے بھائی جان اس کو ترتیب دیتے ۔اس صفحے میں شامل حکایات، کہانیاں، اقوال زریں،شاعری اورلطائف پڑھنے سے ایک ساتھ علم اورلطف کشید کرتے۔ بچوں کے بھائی جان کی وساطت سے بذریعہ خط کتابت ’’نوائے وقت ‘‘ ملتان میں ہماری کہانیاں شائع ہونے لگیں۔ان دنوں کچھ اوربڑے اخبار اپنی چکاچوند دکھا کر منظر عام سے غائب ہوگئے تھے ،جنوبی پنجاب کا واحد قومی اخبار’’نوائے وقت ‘‘ہی تھا۔ان دنوں اخبار کی طرف سے تواتر کے ساتھ کل پاکستان مشاعرے اور کانفرنسیں منعقد ہوتی تھیں۔یہ ’’نوائے وقت‘‘کے ساتھ ہمارا اولین تعارف تھا،جوچالیس سال بعدبھی برقرار ہے۔ان دنوں ملتان میں نوائے وقت کادفتراورمطبع حسن پروانہ کالونی میں تھا۔اس بات کا علم بہت بعدمیں ہوا کہ بچوں کے بھائی جان جن سے ہمارا بچپن سے رابطہ تھا، ان کا نام شیخ سلیم ناز ہے ۔بعدمیں ان سے ایک تعلق خاطر قائم ہوا،میٹرک کا امتحان دینے کے بعد شعرکہنے شروع کیے، تو پوری شان وشوکت سے، ادبی صفحے کے انچارج عبداللطیف اختر کے پاس آئے۔ جب انھوں نے ہماری بے وزن غزل دیکھی تو طنزیہ اندازمیں ہمیں گھورا ،اس کے ساتھ ہی دزدیدہ نظروں کے ساتھ اپنے ساتھ بیٹھی ایک خاتون کولیگ کودیکھتے ہوئے پھیکے سے لہجے میں بولے؛’’آپ کی غزل آگئی ہے،شایدکبھی چھپ بھی جائے لیکن اشاعت کی یاددہانی کے لیے دوبارہ تشریف لانے کی زحمت نہ کیجیے گا۔‘‘اب ہما ری یہ کیفیت تھی کہ کاٹو توبدن میں لہو نہیں،شرم سے پانی پانی ہوگئے۔۱۹۹۷ء میںایک قومی اخبار نے ملتان سے اپنی اشاعت شروع کی تو انٹرویو دینے کے لیے جاپہنچے۔انھوں نے تحریری امتحان اور انٹرویو کے بعدہمیں ٹرینی سب ایڈیٹر کے طور پر ملازمت دے دی،ایک دوست نے کہا ،یار ! جس اخبار میں آپ کو ملازمت ملی ہے ،اس کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ’’نوائے وقت‘‘ اس علاقے کا ایک اہم اخبار ہے،اس میں ملازمت کی کوشش کریں،ان دنوں شیخ ریاض پرویز صاحب ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔ رضی الدین رضی کے وسیلے سے ہم نوائے وقت ملتان میں آگئے اور چند دن ڈیسک پر جاتے رہے،لیکن رات دن کی تبدیلی اوراس کے ساتھ سونے جاگنے کے معمولات میں انقابی تبدیلیوں کے باعث یہ وابستگی ایک ہفتے تک محدود رہ سکی،اور ہم تدریس کے شعبے میں آگئے۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں ہمارے کالموں کی اشاعت ملتان ایڈیشن سے شروع ہوئی لیکن اس میں تسلسل نہیں تھا۔سیدعطااللہ شاہ بخاری کے نواسے سید ذوالکفل بخاری ہمارے گہرے دوست تھے،وہ ازراہِ مذاق کہاکرتے تھے۔’’بھائی سنو! اس ملک میں جو شخص پانچ وقت نماز پڑھتا ہو اور نوائے وقت پڑھتا ہو،وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا‘‘ ۔’’شاہ جی! وہ کیسے‘‘۔’’آپ کا شمار سادہ دلوں میں ہوتاہے،اس لیے ابھی یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی‘‘۔اس بات کی سمجھ توہمیں آج تک نہیں آسکی البتہ یہ جملہ قدرے تصرف کے ساتھ ہمارے کام ضرور آگیا۔و ہ کچھ اس طرح کہ ۲۰۰۵ء میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت صوبے بھر میں ہائیرایجوکیشن کمیشن میں لیکچرر کی ملازمتیں آئیں،ہم نے لیکچرر اردو کے لیے اپلائی کردیا،تحریری امتحان پاس ہوگیا،انٹرویو پینل میں مختلف الخیال لوگ موجود تھے۔پینل کی صدارت معروف سفرنامہ نگار اور ریٹائرڈ بیوروکریٹ سیدشوکت علی شاہ کررہے تھے۔انھوں نے انٹرویو کے دوران میںاچانک سوال کیا،کیا آپ اخبار پڑھتے ہیں؟۔ جی سر۔کون سا اخبار پڑھتے ہیں؟۔جی نوائے وقت۔میں نے مختصر جواب دیا۔نوائے وقت ہی کیوں پڑھتے ہیں؟۔ہم نے اپنی وضع میں جملے کو ذرا تخلیقی بناتے ہوئے کہا۔جی وہ اس لیے کہ دادا جان کہا کرتے تھے ،جو لوگ پانچ وقت نماز اورنوائے وقت ایک ساتھ پڑھتے ہیں ،وہ محب وطن پاکستانی ہوتے ہیں۔پینل میں شامل لوگوں کے رنگ زرد پڑ گئے۔ ایک صاحب گویاہوئے۔میں نماز پڑھتا ہوں نہ نوائے وقت،توکیامیں محب وطن نہیں؟۔ہماری حالت غیرہوگئی۔اچانک ایک اورصاحب بولے۔میں تو محب وطن ہوں کیونکہ یہ دونوں کام کرتا ہوں ،سید شوکت علی شاہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے،میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوں اور نوائے وقت بھی،میں بھی پکا محب وطن ہوں۔اس کے ساتھ ہی قہقہے لگے اورہماری جان میں جان آئی ۔لیجیے اس بحث میں انٹرویو تمام ہوا اور ہمیں منتخب کرلیا گیا۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ’’نوائے وقت‘‘ کے ساتھ ہمارا ایک رشتہ تو بنتا ہے۔تو کیااس کالم کے آخر میں آپ سے یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ آخر آپ نوائے وقت کیوں پڑھتے ہیں؟۔