پناہ گاہ جو سرکار نے ہے بنائی
مجھے بھی وہیںدے دوایک چارپائی
بچھونے میں شامل ہوں گدہ رضائی
زیادہ کی خواہش نہیں میرے بھائی
وہیں پر ملے ناشتہ اور کھانا
پڑے نہ کہیں دور جانا یا آنا
یونہی چلتے پھرتے گزاری عمر ہے
کہیں کوئی چھپر نہ ڈھاری نہ گھر ہے
تھے جتنے بھی غمخوار سب چھوڑ بیٹھے
مروت کے رشتے سبھی توڑ بیٹھے
ٹھکانہ نہ جب ملا تھا کہیں پر
گزارے شب وروزننگی زمیں پر
مگر جب سے ڈیرہ لگایایہاں ہے
زمیں کے قریب آ گیا آسماں ہے
کوئی فقروفاقہ کاڈرنہ خطر ہے
یہی ہے ٹھکانہ یہی مستقر ہے
تمنا ہے جب تک رہے زندگانی
اسی چھت کے نیچے ملے روٹی پانی
شرافت ضیاء
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024