حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدرشاہدخاقان عباسی اور سیکریٹری جنرل احسن اقبال ان دنوں اڈیالہ جیل راولپنڈی میںپابند سلاسل ہیں دونوںہی ایک بیرک میں ہے لیکن سیل مختلف … ایک میں شاہد خاقان عباسی کا ٹھکانہ ہے جب کہ دوسرے پر احسن اقبال کا قبضہ َ دونوں نیب کے ستائے ہوئے ہیں یہ وہی جیل ہے جس میں پی ایم ایل این کے قائدمحمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے سیاسی زندگی کے تلخ ایام گذارے ۔ میاں نواز شریف نے اسی جیل میں اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی وفات کی المناک خبر سنی تھی ْ جیل کے درو دیوار ان کی جرات و استقامت کی گواہی دیتے ہیں اسی جیل میں آصف علی زرداری بھی رہے ہیں مفتاح اسمعیٰل بھی جیل یاترا کے بعد کراچی چلے گئے ہیں شاہد خاقان عباسی 194 ایام نیب کے’’ عقو بت خانے‘‘ اور جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل کے ’’مکین ‘‘ بنے ہیں ان کو ’’کمپنی‘‘ دینے احسن اقبال بھی اڈیالہ جیل پہنچ گئے ہیں ۔دونوں دن اکھٹے گذارتے ہیں، کھانا اکھٹے ہی کھاتے اور نماز بھی اکھٹے پڑھتے ہیں ۔سپیکر قومی اسمبلی نے رانا ثنا اللہ اور خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے معذوری کا اظہار کیا تو شاہد خاقان عباسی نے بھی اپنا پروڈکشن آرڈرجاری ہونے کے باوجود بطور احتجاج پارلیمان آنے سے انکار کر دیا بالآخر رانا ثنا اللہ کی رہائی کے بعد انہوں نے پروڈکشن آرڈر پر پارلیمنٹ آنا شروع کر دیا اب وہ احسن اقبال کے ہمراہ ہی پارلیمان میں آتے ہیں اڈیالہ جیل کی قربت نے جہاں شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو بہت’’ قریب‘‘ کر دیا ہے وہاں سروسز ایکٹس میں ترمیمی بلوں کی حمایت کر نے پر دونوں کو خواجہ آصف سے بہت’’ دور ‘‘ کر دیا ہے خواجہ آصف اور شاہدخاقان عباسی کے درمیان صلح کرانے کی ’’ناکام‘‘ کوشش کی گئی۔ دونوں میں بول چال تک بند ہے خواجہ آصف شاہد خاقان عباسی کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں وہ پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن لیڈر چیمبر کے اس کمرے میں جانے سے گریز اں رہتے ہیں جہاں شاہد خاقان عباسی براجمان ہوں اس وقت پارٹی میں واضح تقسیم نظر آتی ہے میاں شہباز شریف ، خواجہ آصف ، رانا تنویر حسین اور سردار ایاز صادق ایک صفحہ پر ہیں جب کہ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی سوچ یکساں ہیں پارٹی کی ’’سیاسی قلابازی‘‘ پر شاہد خاقان عباسی اوراحسن اقبال پر پارلیمان میں آنے پر پارلیمان آنے سے انکار کر دیا لیکن ان کو منت سماجت کر کے پارلیمان میں لایا گیا جس روز مسلم لیگ پارلیمان میں سروسز ایکٹس کے ترمیمی بلوں کے حق میں ووٹ ڈال رہی تھی اس روز شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال پارلیمان میں نہیں آئے مسلم لیگ (ن) کے ’’انقلابی‘‘ لیڈر پرویز رشید جو میاں نواز شریف سے لندن میں ملاقات کرنے والوں میں شامل تھے انہوں نے بھی سروسز ایکٹس میں ترمیمی بلوں کے حق میں ووٹ ڈالنے کے وقت ایوان بالا میں موجود نہ تھے ۔ جس روز قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس میں خواجہ آصف نے سروسز ایکٹس میں ترمیمی بلوں کی حمایت کرنے کے بارے میں ’’گرم پانیوں ‘‘ میں تھے میاں نواز شریف کے حکم کی تصدیق کے لئے پرویز رشید نے ان کی مدد کی خواجہ آصف کا موقف تھا کہ ان کا’’ رول‘‘ ڈاکخانے سے زیادہ نہیں انہیں اعلیٰ قیادت کی جانب سے جو حکم ملا وہ انہوں نے ارکان تک پہنچا دیا شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کا موقف مختلف تھا ان کا کہنا ہے کہ میاںنواز شریف سروسز ایکٹس میں ترمیمی بلوں کی موجودہ شکل میں حمایت کرنے کے حق میں نہیںتھے وہ سروسز ایکٹس میں ترمیمی بلوں میں مدت ملازمت میں توسیع کی شق ایک بار شامل کرنے کے حق میں تھے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال اپنے خلاف بنائے گئے نیب کے مقدمات میں ضمانت کرانے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن انہوںنے پی ایم ایل این کے قائد محمد نواز شریف کی ہدایت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر دی ہے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال دونوں اڈیالہ میں پیوٹن کی بائیو گرافی اور عالمی سیاست پر کتب کا مطالعہ کر رہے ہیں جب شاہد خاقان عباسی تو اخبارات پڑھتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں جب کہ احسن اقبال روزانہ 5،6اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں شاہد خاقان عباسی دھڑا دھڑ ناول پڑھ رہے ہیں وہ روزانہ اپنے احاطے میں 10کلومیٹر واک کرتے ہیں ۔شاہد خاقان عباسی ، احسن اقبال اور رانا ثنا اللہ پارلیمان میں آتے ہیں تو ان کے گرد لوگوںکا جمگٹھا لگ جاتا ہے ان سے سلفیاں بنانے والوں کی قطار لگ جاتی ہے تین روز قبل شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال سے اپوزیشن لیڈر چیمبر کے ساتھ والے کمرے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ دونوں کی خوش گپیوں میں سابق رکن قومی اسمبلی ملک ابرار ، نوجوان صحافی طارق عزیز اور عثمان عباسی بھی شریک تھے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال سے مختصر انٹرویوز لینے کا موقع بھی مل گیا دونوں نیب کے کردار کے بارے شاکی تھے میں نے شاہد خاقان عباسی سے نیب قانون میں ترمیم بارے دریافت کیا تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ ’’نیب دہشت گرد تنظیم ہے اسے فوری طور پر ختم کرنا قوم کے لئے تحفہ سے کم نہیں ‘ ہو گا ‘ نیب پولیٹیکل انجینئرنگ کا کارخانہ ہے یہ ادارہ ملک کو تباہ کررہا ہے وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر تو بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’’یہ دو نمبر آدمی ہے اس کے دعوئوں میںکوئی صداقت نہیں ہے ‘‘ انہوں نے آٹے اور چینی بحران سے متعلق سوال کے جواب میںکہا کہ’’ اس بحران کی وجہ حکومتی کرپشن ہے، حکومت سیاسی مخالفین سے جیلیں آبادکرنے میں مصروف ہے ۔ آج ملک میں مہنگائی ناقابل برداشت ہے۔ آٹا بحران سب کے سامنے ہے ۔ یہ سراسر کرپشن، نا اہلی اور لاپراوہی کا نتیجہ ہے‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ وفاق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے پہلے یہ الزام لگایا آپ نے ایل این جی مہنگے داموں خریدی ہے لیکن اب مقدمہ بنایا گیا ہے کہ آپ نے ایل این جی ٹرمینل کی منظوری دینے میں اپنے اختیارات کا استعمال کیا تو انہوں نے کہا کہ’’ دراصل ابھی تک نیب سے کیس بنا ہی نہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے کیس بنائے جانے کا انتظار کر رہا ہوں جہاں تک شیخ رشید احمد کے الزامات کا تعلق ہے اگر وہ ایل این جی کے انگریزی ہجے ہی بتا دیں تو میں سمجھوں گا کہ انہیں بھی کچھ ایل این جی کے بارے میں علم ہے ۔ شیخ رشید احمد کی اپنی کارکردگی پر سپریم کورٹ نے جو عزت افزائی کی ہے وہ عدالتی تاریخ کا حصہ ہے موجودہ حکومت کے پاس دنیا کو اپنی ڈیڑھ سال کی کارکردگی بتانے کے لئے کچھ نہیں اس کی کارکردگی صفر ہے ۔ہمارے وزیراعظم بیرون ملک جینوا میں کہتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے ثبوت فوجی حساس اداروں کے پاس ہیں۔ جب بین الااقومی کمیونٹی یہ سنے گی ایک ملک میں فوجی حساس ادارے سویلین لوگوں پر نظر رکھے ہوئے ہیںوہاں کون سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ حکومت کی بہت بڑی لاپراوہی اور ناکامی ہے‘‘۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نوازشریف کا ساتھ دینے کی وجہ سے جیل بھگت رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ’’ میرا لیڈر نوازشریف ہے لیکن یہ آواز میرے ضمیر کی ہے۔ ہم وہی بات کہیں گے جو میرا ضمیر کہے گا۔ جب تک ضمیر مطمئن ہو میں تب کوئی تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہوں 20سال قبل بھی نواز شریف سے دوستی کے ’’جرم ‘‘ میں جیل بھگت چکا ہوں ‘‘۔اس سوال کے جواب میں کیا اتنا عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد کیا آپ نیب کو ایل این جی کیس سمجھانے میں کامیاب ہوئے ہیں یا پھر نیب والے آپ کے موقف کا قائل ہو گئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نیب دونوں کاموں میں ناکام رہی کیوں کہ جب تک آپ کے پاس بنیادی علم ہی نہ ہو، معاملات کی سمجھ نہ ہو اور آپ تعلیم سے عاری ہوں تب تک آپ سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ نیب نے ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل حقیقت ہے۔ دو چیف جسٹس بھی یہ کہہ چکے ہیں۔ ایک نے کہا کہ سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے جب کہ دوسرے نے کہا کہ نیب کو ختم کر دیں ۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا نیب قانون میں ترمیم کی گنجائش ہے تو انہوں نے کہایہ ایک آمر کا بنایا قانون ہے جسے ہم ختم نہ کر سکے اسے اب ختم کرکے قوم پر احسان عظیم کرنا چاہیے۔ اس سوال پر کہ جیل میں ان کے دن کیسے گزر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میرے لئے یہ کوئی مشکل نہیںہے۔ زندگی باہر بھی گزرتی جاتی ہے اور ادھر بھی گزر رہی ہے مگر جیل میں ضمیر کے مطابق گزر رہی ہے۔ مجھے جیل جانے کا شوق نہیں ہے ۔ میں نے پرویز مشرف کی جیل بھی دیکھی اور عمران خاں کی ، اس میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے مگر یہ ضرور ہے کہ اس بار کمینگی کا عنصر زیادہ ہے۔ شنید ہے آپ کے بعض مسلم لیگی رہنمائوں سے اختلافات ہیں تو انہوں نے کہا کہ میرے کسی سے اختلافات نہیں۔ انہوں نے پی ایم ایل این میں اختلافات کی خبروں کی تردیدکی ۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جب تک ملک میں 6 سٹیک ہولڈرز جوملکی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں کو ایک ٹیبل پر نہیں بیٹھائیں گے اس وقت تک ملک نہیں چلے گا شاہد خاقان عباسی کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال سے گفتگو کرنے کا موقع ملا احسن اقبال کے نابالغ سیاسی مخالفین دور حاضر کا ’’ارسطو‘‘ ہونے کا طنز دیتے ہیں لیکن اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں درس و تدریس سے حلال کمائی کمانے والا استاد واقعی ’’ارسطو‘‘ سے کم نہیں جب انہوں نے پاکستان کی تعمیر وترقی کا ویژن دیا تو اس وقت کے سیاسی نابالغوں نے ان کے ویژن کامذاق اڑایا تھا نیب نے احتساب کورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ احسن اقبال پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لیکن اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے انہوں نے کہا کہ ’’ میرے خلاف دائر کئے جانے والا نیب کا کیس پاکستان کے احتساب کی تاریخ میں ایک بہت بڑا ’’لطیفہ ‘‘ہیں۔ میرے اوپر لگائی جانے والی فرد جرم میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ میں نے ناروال سپورٹس سٹی میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ’’ کیا یہ منصوبہ کوئی نائٹ کلب ہے یاجوا خانہ ہے ‘‘ یہ منصوبہ ہم نے 2009ء میں شروع کیا گیا جب پی ایم ایل این کی حکومت آئی تو اس بیسیوں نامکمل منصوبے مکمل کئے جس میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا۔ اس سلسلے میں سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) سے منظوری حاصل کی گئی۔ یہ میری ذاتی منظوری نہیں ہے۔ کیا اعلیٰ معیار کا سپورٹس سٹی بنانا کوئی جرم ہے؟ نیب کورٹ نے پہلی سماعت میں جب نیب پراسیکیوٹر سے اس منصوبے میں میرے متعلق کوئی مالی بے ضابطگی ، کمیشن یا کک بیک کھانے کے الزام کے بارے میں پوچھا تو اس نے اعتراف کیا کہ ایسا کوئی الزام نہیں ۔ اس سوال کے جواب میں کیا انہیں اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے ہونے کی وجہ سے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو انہوں نے کہا کہ’’ بلاشبہ یہ تمام مقدمات جو آج پی ایم ایل این کی قیادت پر بنائے جا رہے ہیں یہ دراصل ان کے سیاسی نظریات پر قائم رہنے کی وجہ سے بنائے جا رہے ہیںاورپارٹی سے سیاسی وفا داری کی بنا پر ان کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے ہیں۔ اگر آج ہم اپنی سیاسی قیادت سے بے وفائی کریں تو یہ تمام مقدمات ختم ہو جائیں گے ۔ آپ نے دیکھا کہ حکومت کی چھتری میں جو لوگ چلے گئے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ پشاوربی آر ٹی کا اتنا بڑا کرپشن کا منصوبہ ہے اس پر کسی نے کارروائی نہیں کی۔ آٹا بحران آیا، پھر ادویات کی قیمتوں کا سکینڈل سامنے آیا۔ ایک وزیر تو ہٹا دیا گیا لیکن نیب نے کرپشن پر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے ۔ سیاسی تاریخ میں ہمیشہ کارکن جیلوں میں جاتے تھے قائدین باہر ہوتے تھے مگر آج مسلم لیگ ن کے قائدین جیلوں میں اور وہ بھی کارکنوں کی طرح قربانیاں دے رہیں اور اپنے نظریات پر کھڑے ہیں۔مسلم ن کی قربانیاں رنگ لائیں گی اورجھوٹ پر قائم نظام جو اس ملک کے اوپر مسلط ہے جلد ختم ہو جائے گا ۔ میں نے سوال کیا کہ ’’ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ سروسز ایکٹس ترمیمی بلوں کی حمایت کرنے پر مسلم لیگ ن کی صفتوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں کیا یہ اب بھی یہ صورت حال برقرار ہے یا قیادت نے اس تنازعے کو ختم کروا دیا ہے جس پر انہوں نے کہا کہ ’’ پاکستان آرمی ہمارا قومی ادارہ ہے اور اس حوالے سے ہماری ایک سوچ ہے جو بحث آپ نے دیکھی وہ اس کی منظوری سے پہلے تھی اور وہ یہ تھی کہ مستقبل میں کسی بھی قسم کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دینا چاہیے چونکہ فوج ایک قومی اور پیشہ وارانہ ادارہ ہے میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ فوج میں مدت ملازمت میں کسی قسم کی توسیع دینے کی روایت درست نہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024