منی بجٹ لانے کی تیاریاں،مہنگائی اور مہنگائی
عوام نئے پاکستان میں تبدیلیاں دیکھے یا نہ دیکھے پر دن میں تارے ضرور دیکھ رہی ہے۔بوکھلائی ہوئی عوام کو لگ پتہ گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران اپنے دعوںکے پکے ہیں۔ انہوں نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا ،’’ عوام کی جیبوں سے کیسے پیسے نکالے جاتے ہیں، یہ کام میں کر کے دکھائوں گا‘‘۔اب حالت یہ ہے کہ حکومت عوام کی جیبوں سے رقم نکلوانے کے لیئے نت نئے ’ گر ‘ تلاش کر رہی ہے اور مہنگائی سے ’ پسی‘ ہوئی عوام حکومت کی کارکردگی کا حساب کتاب لگا رہی ہے کہ ایف آر بی نے عوام سے 200ارب نکلوائے، چین سے اتنے ڈالرز آئے، امریکہ سے کتنے ڈالر امداد اور قرض ملا،بھاشا ڈیم فنڈ میں اربوں ڈالرز اور روپے اکھٹے ہوئے ہیں لیکن مہنگائی کا جن قابو نہیں ہونے کو۔ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق ہر جانب، ہر طبقہ مہنگائی سے پریشان ہے ایک عام شخص سے لے کر امیر غریب ہو حکومت سے تنگ نظر آتا ہے جس کی عکاسی نہ صرف معمول کی خرید و فروخت سے ہوتی ہے بلکہ میڈیا پر عوام کے تائثرات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یوں قوم اب کہتی پھر رہی ہے کہ لاکھ کرپٹ سہی، پہلے والی ہی حکومت اچھی تھی۔تاہم وزیراعظم عمران خان نے فرمان جاری کیا ہے کہ مہنگائی کی لہر سے عوام میں تشویش ہے، ہمیں اپنی عوام کا احساس ہے، مہنگائی کم کریں۔
مالی سال کے ابتدائی سات ماہ کے دوران ریونیو کمی 218 ارب روپے تک پہنچ گئی ، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ٹیکسوں میں اضافے سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، حکومت نے آئندہ منی بجٹ کے حوالے سے کچھ اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹیز اور اضافی کسٹمز ڈیوٹیز کم کرنے پر سوچ بچار شروع کردی ہے۔ ، ایف بی آر برآمدات میں حائل دشواریاں دور کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ دوسری جانب 50 ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر شتاختی کارڈ کی شرط پر عملدر آمد شروع ہوگیا ہے، جس کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی۔
حکومت دو طرح کے کام کرنے جا رہی ہے ایک یہ کہ درآمدات کو کھول دیا جائے کیوں کہ اس کے نتیجے میں ریونیو میں اضافہ ہوگا اور دوسرا طریقہ یہ کہ شناختی کارڈ کی شرط پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے جو کہ یکم فروری، 2020 سے 50ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر موثر ہوچکی ہے۔ پبلک فنانس مینجمنٹ کے تحت بجٹ ریویو رواں ماہ کے آخر تک پارلیمنٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ شنوائی ہے کہ درآمدات کا دبائو 6 ارب ڈالرز تک جاپہنچا ہے اس لیے اب حکومت اس میں آہستہ آہستہ نرمی لانا چاہتی ہے۔ چونکہ رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ کے دوران ریونیو کمی 218 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے ۔ جبکہ دوسری جانب آئی ایم ایف جائزہ مشن نے پاکستانی حکام سے مذاکرات شروع کر دئے ہیں۔
جنوری، 2020 تک ضمنی ریونیو کے اعدادوشمار 320 ارب روپے ہیں جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 17 فیصد زائد ہیں۔ ان اعدادوشمار میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ مجموعی اعدادوشمار بھی 17 فیصد تک کا اضافہ دکھارہے ہیں۔ یہ سوچنا غلط ہے کہ نامیاتی جی ڈی پی ترقی کی رفتار سے ٹیکس جمع کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ٹیکس طریقہ کار بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ، در آمدات، غیر غذائی، غیرادویات، نان شیلٹر اور مہنگائی وغیرہ پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا انحصار اجرت کی شرح میں اضافے اور کارپوریٹ منافع میں کمی کے بعد نامیاتی اضافے پر ہے، جب کہ اس کا انحصار نامیاتی جی ڈی پی پر نہیں ہے۔یہ تمام عشاریئے میکرو اکنامک ایڈجسٹمنٹ مرحلے سے گزر رہے ہیں لہٰذا سرکاری بیان کے مطابق 17فیصد ٹیکس نمو رواں مالی سال ایف بی آر کی جانب سے بڑے پیمانے پر وصولیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ گزشتہ 5 سال کے اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ ایف بی آر نے درآمدی مرحلے میں تقریباً 50 سے 55 فیصد ٹیکس وصول کئے۔ درآمدی دبائو نے اس شعبے میں پیداوار کو تقریباً صفر کردیا۔ ٹیکسوں میں تمام تر نمو مقامی ٹیکسوں میں30فیصد نمو کی مرہون منت رہی۔ ایف بی آر کے افسران محدود وسائل کیساتھ روزانہ 12 گھنٹے کام کررہے ہیں۔ رواں سال گوشوارے داخل کرنے کی شرح میں 40فیصد اضافہ ہوا۔ ایف بی آر کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ ٹیکس اقتصادی سرگرمیاں کا حاصل حصول ہے اور رواں سال کوششوں کو کاروباری سرگرمیوں سے مربوط کیا گیا ہے۔ ایف بی آر برآمدات میں حائل دشواریوں کو دور کرنے کے لئے بھی سرگرم ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کی امسال گزشتہ سال 60 ارب کے مقابلے میں 120 ارب روپے کے ریفنڈ جاری کئے گئے جسے حکومت مہنگائی کو ایک وجہ قرار دیتی ہے۔