چکبست نارائن نے کہا تھا …؎
زندگی کیا ہے عناصر کا ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
ہر جاندار نے ایک نہ ایک دن اس جہان فانی سے کوچ کرنا ہے اور اپنے اجزاء کی پریشانی سمیٹے ابدی دنیا کی طرف روانہ ہونا ہے۔ اس دنیا اور اس دنیا میں فرق ہے تو صرف اتنا کہ یہاں نیکیاں بانٹو اور رحمتیں سمیٹو۔
اس دیار فانی میں مزنگ کے ڈاکٹر کیپٹن (ر) محمد آصف بھی ایسی ہی ایک شخصیت تھے جنہوں نے اس دیار فانی میں زندگی بھر خلق خدا میں نیکیاں بانٹیںاوراب تا ابد اس دنیا میں رحمتیں سمیٹ رہے ہونگے۔ ڈاکٹر صاحب اچھے معالج تھے‘ علاج بھی کرتے تھے اور مسکراہٹیں بھی بانٹتے تھے۔ ٹیتلیفون پر بھی دستیاب تھے اور کسی مریض نے فون پر ہی علاج چاہا تو انہیں کیا انکار۔ انہوں نے طب کو پیشہ کے طورپر نہیں بلکہ عشق کے پہناوے کے طورپر اپنایا۔ ہر وقت موجود اور ہر وقت ہنستے کھیلتے مریضوں کا علاج۔ انہوں نے زندگی کو زندگی کی طرح اختیار کیا۔ ان کے لہجے کی نرمی اور ہونٹوں کی مسکان سے مریض کا آدھا مرض تو ویسے ہی دور ہو جاتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ ان کے خمیر میں دودھ اور شہد کی آمیزش ہے۔ بچوں سے انتہائی شفقت سے پیش آنا ان کا معمول تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بچوں کو سختی سے نہیں بلکہ پیاراور محبت سے سکھانا چاہئے۔ سختی میں تاثیر نہیں بلکہ نرمی جلد اپنا اثر دکھاتی ہے۔
جو کچھ ان کے پاس تھا انتہا کا تھا۔ پارسائی بھی انتہا کی‘ شگفتگی بھی انتہا کی‘ بے ساختہ پن بھی انتہا کا اور خلوص بھی انتہا کا۔ رسم درہ دنیا سے بہت بے نیاز تھے۔ رب لم یزل پر پختہ یقین اور ایمان۔ نیا و نصائح اور وعظ سے گریز کرتے تھے اور اپنے عل سے دل خریدنے والی یہ شخصیت اپنے مداحوں کو غمگین اور اداس کر گئی ہے۔ ان کا چہرہ کشادہ اور دل اطمینان کی دولت سے مالا مال تھا۔ دنیاوی نمود و نمائش ان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی۔
ڈاکٹر کیپٹن (ر) آصف مرحوم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہیں اپنے اردگرد کی برائیوں اور خرابیوں سے کوئی روکار نہ تھا اور نہ ہی وہ اس بارے میں شکایت کناں رہتے تھے۔ کسی کی کوئی خامی یاکوتاہی ہوتی تو اسے اچھالنے کی بجائے سرسری طورپر لیتے تھے اور ذکر بھی سرسری انداز میں کرتے تھے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا۔ ان کے مریضوں کی تعداد کا کیا کہنے‘ جو ایک بار دوائی لینے آیا پھر خاندان کا خاندان ان کا مطیع ہوگیا۔ گھر میں کسی کو بھی تکلیف ہوتی تو اس نے ڈاکٹر آصف کا رخ کیا۔ دوا کیساتھ ساتھ دعا بھی کرتے تھے۔ وضع داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ان کا کلینک ایک زمانے کیلئے فیض کا منبع تھا۔ بلاشبہ ایک روشن چراغ تھا نہ رہا‘ ایک عالی دماغ تھا نہ رہا۔ یہ دنیا نیک انسانوں کی وجہ سے قائم ہے۔ اللہ کے نیک بندے ہی اس جہان فانی کا حسن ہیں۔ یہ بندے آتے ہیں‘ چلے جاتے ہیں مگر ان کی نیکیاں‘ حسن اخلاق‘ شگفتہ مزاجی اور خیر کے اعمال انہیں امر کر دیتے ہیں۔ ان کے صاحبزادے ڈاکٹر افلاک رشید بھی اپنے والد کی منہ بولی تصویر ہیں۔ متانت اور دیانت ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ڈاکٹر محمد آصف کے حوالے سے یہ شعر ان کی شخصیت کا آئینہ دار ہے …؎
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہونگے کوئی ہم سا ہوگا
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38