محکمہ تعلیم بے روزگار ی اور NTS
یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے دوران ادراک ہوا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کس قدر مہنگی ہے۔ ناجانے کتنے طلباء و طالبات اخراجات برداشت نہ کرنے کے سبب اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہوں گے اور جو کوشش کر کے یہاں تک پہنچ جاتے ہیں وہ کتنی مشکل سے اپنے سفر کو انجام تک پہنچاتے ہیں۔ اس قدر محنت اور اتنی قربانیوں کے بعد انسان مستقبل کے لئے سنہری خواب سجا ہی لیتا ہے مگر جب یہ خواب سجا کر ڈگری ہاتھ میں لئے یونیورسٹی کی حدود سے باہر نکلتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت خوابوں سے کس قدر دور ہے۔ ایک مناسب پوسٹ کا حصول جوئے شیر لانے سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہے تعلیم پر آنے والے اخراجات کا بوجھ ابھی اترا نہیں ہوتا کہ سامنے NTS منہ کھولے کھڑا نظر آتا ہے اور پھر اگلے ایک عرصہ تک اس کا منہ بھرنا پڑتا ہے مختلف پوسٹس پر اپلائی کرنے کی بھی ایک قیمت چکانی پڑتی ہے اور اس پر وہ جو دور دراز کے علاقوں کے ہوتے ہیں انہیں ٹیسٹ سنٹر تک رسائی کے لئے کرائے خرچے الگ سے بھرنے پڑتے ہیں۔
اس بار تو بات اس سے بھی بڑھ گئی شاید NTS کے خزانے میں کمی آ چکی تھی اس لئے اس بار بے روزگاروں کو لوٹنے کا ایک الگ راستہ اختیار کیا گیا۔ محکمہ تعلیم کے 14,9 اور 16 ویں سکیل کی پوسٹس پر اپلائی کرنے اور چالان بھرنے کے بعد معلوم ہوا بہت سے اضلاع اور تحصیلوں میں تو سیٹیں تھی ہی نہیں اور اگر تھیں بھی تو اکا دکا ہزاروں لوگوں پر یہ انکشاف بجلی بن کر گرا۔ ان میں سے نجانے کتنوں نے قرض اٹھا کر یہ چالان بھرے ہوں گے اس کے بعد جو اکا دکا سیٹیں دستیاب تھیں ان کے لئے ٹیسٹ دینے گئے تو پتہ چلا کہ بندر‘ ہاتھی مچھلی اور باز کی مہارت آزمانے کا ایک ہی طریقہ تھا سٹوڈنٹس کی سپیشلائزیشن کو مدنظر رکھے بغیر ہی ٹیسٹ پیپر تیار کیا گیا تھا۔ دنیا جہاں کا ہر مضمون ٹیسٹ میں موجود تھا۔ بائیو اور کیمسٹری کے طالب علموں کے سامنے فزکس اور میتھ کا پہاڑ کھڑا کیا گیا۔ فزکس اور میتھ والوں کو بائیو اور کیمسٹری کا سمندر عبور کرنے کا حکم دیا گیا آرٹس والوں کے سامنے سائنس تھی اس کے علاوہ کمپیوٹر ‘ عربی‘ اسلامیات اردو اور انگلش کے روڑے بھی اٹکائے گئے۔ اگر یہ سب مضامین بیسک لیول کے بھی ہوتے تو بات تھی مگر 16ویں سکیل کے لئے یہ سب ایف ایس سی اور گریجویشن لیول کے تھے ان حالات میں جو بھی ٹیسٹ سنٹر سے باہر نکلا اس کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ میٹرک کے بعد مضامین مختصر ہوتے جاتے ہیں اور ماسٹر تک آپ کسی ایک مضمون پر آ جاتے ہیں جب آپ کا سسٹم ہی سٹوڈنٹس کو کسی ایک سبجیکٹ تک محدود رکھتا ہے تو پھر آپ ان سے کس طرح یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آل راؤنڈر بنیں اس سے تو بہتر ہے کہ یا تو محکمہ تعلیم کو ختم کر دیا جائے یا پھر ہمیں بے روزگار رہنے دیا جائے ورنہ NTS کا منہ بھرتے بھرتے آپ کا پڑھا لکھا طبقہ دیوالیہ ہو جائے گا اور پھر بے روزگاری اسے جرائم کی طرف قدم بڑھانے پر مجبور کر دے گی۔