ٹرینوں کے حادثات سالہاسال سے ذمہ داروں کا تعین نہ ہوسکا
ملتان (واثق رؤف سے ‘ تصاویر شہزاد نصیر)پاکستان ریلویز میں مسافر اور مال بردار ٹرینوں کے ہونے والے حادثات ہیں سالہا سال سے ذمہ داروں کا تعین نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے ملتان سمیت تمام ریلوے ڈویژنوں میں ٹرینوں کے ریلوے ٹریک سے اترنے‘ ٹرینوں اور نجی و ہیکل کے ساتھ کچے اور پکے ریلوے پھاٹکوں پر ٹکرانے اور ٹرینوں کے باہم ٹکرانے کے درجنوں حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ان حادثات میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیائع بھی ہوتا ہے حادثات ٹرین ڈرائیوروں شعبہ ٹریفک‘ شعبہ سول انجینئرنگ ‘ شعبہ مکینیکل کیرج اینڈ ویگن‘ دیگر شعبوں کے ملازمین اور نجی ٹرانسپورٹرز کی لاپرواہی کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔ ریلوے ملتان ڈویژن میں سال 2015ء سے لے کر سال 2017ء تک 104 ٹرین حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ جن میں صرف دو خطرناک حادثات میں ہی 12 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سال 2015ء میں ٹرینوں کے 40 حادثات ہوئے جن میں سے پختہ ریلوے پھاٹک پر نجی ٹرانسپورٹ کے ساتھ دو‘ کچے ریلوے پھاٹک پر 17‘ اوپن ریلوے ٹریک پر 13 حادثات ہوئے ہیں جبکہ اسی سال 3 مسافر ٹرینوں کے ریلوے ٹریک سے اترنے اور 3 ہی مال بردار ٹرینوں کے ریلوے ٹریک سے اترنے کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ روڈ وہیکل اور ٹرین حادثات میں متعدد قیمتی جانیں ضائع بھی ہوئیں اسی سال دو ٹرینوں کو آگ لگنے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ سال 2016ء میں ملتان ڈویژن میں 38 ٹرین حادثات رونما ہوئے جن میں سے پختہ ریلوے پھاٹک پر روڈ وہیکل کے ساتھ ٹرین کے 3‘ کچے پھاٹک پر روڈ وہیکل اور ٹرینوں کے 11 اور اوپن ریلوے لائن پر روڈ وہیکل اور ٹرینوں کے 16 حادثات رونما ہوئے اس سال مسافر ٹرینیں ریلوے ٹریک سے اترنے کے 3 ااور مال بردار ٹرینوں کے اترنے کے 5 واقعات ہوئے اس سال شیر شاہ کے قریب عوام ایکسپریس اور مال گاڑی میں تصادم کے باعث 4 مسافر جان سے گئے جن میں سے دو نے موقع پر اور دو بعد ازاں ہسپتال میں دم توڑا تھا سال 2017ء کے دوران 26 ٹرین حادثات رونما ہوئے جن میں پختہ ریلوے پھاٹک پر 6 جنوری کو ہونے والا حادثہ سب سے خطرناک تھا جس میں کھلے ریلوے پھاٹک سے گزرتے ہوئے چنگ چی رکشہ کراچی جانے والی ہزارہ ایکسپریس کی زد میں آ گیا حادثہ میں رکشہ پر سوار سکول جانے والے 7 معصوم بچے اور رکشہ ڈرائیور جاں بحق ہو گئے تھے اس کے علاوہ اوپن ٹریک پر نجی وہیکل کے ساتھ 14 جبکہ کچے پھاٹک پر 4 حادثات رونما ہوئے 8 واقعات ٹرینوں کے ریلوے ٹریک سے اترنے کے ہوئے ذرائع کے مطابق کچے پھاٹک پر اور اوپن ٹریک پر ہونے والے حادثات کی ذمہ داری ہمیشہ نجی ٹرانسپورٹر پر عائد ہوتی ہے تاہم پختہ ریلوے پھاٹک پر ہونے والے حادثات مسافر ٹرینوں کے باہم ٹکرانے کے حادثات اور ریلوے ٹریک سے اترنے کے حادثات کی ذمہ داری ریلوے پر عائد ہوتی ہے جن کے لئے ڈویژن اور ہیڈ کوارٹر کی سطح پر کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں جنہوں نے غفلت کے مرتکب ملازمین کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ حادثات کی رپورٹ فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلوے کو بھجوائی جاتی ہے۔ تاہم معلوم ہوا ہے کہ ملتان سمیت تمام ڈویژنوں میں مال بردار مسافر ٹرینوں کے باہم ٹکرانے ریلوے ٹریک سے اترنے اور پختہ ریلوے پھاٹکوں پر ہونے والے حادثات کی زیادہ تر انکوائریاں تاحال مکمل نہیں ہو سکیں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ انکوائریاں مکمل نہ ہونے بارے ایف جی آئی آر کی طرف سے بھی ڈویژنوں کو مراسلہ جاری کیا جاتا ہے کہ زیر التواء انکوائریوں کو مکمل کر کے رپورٹ بھجوائیں تاہم اس کے باوجود سالہا سال سے انکوائریاں مکمل نہیں کی جاتیں اور تحقیقات کاغذی کارروائی تک ہی محدود رہتی ہے۔ ٹرین حادثات کے بعد ٹرین ڈرائیوروں کے خلاف غفلت ثابت ہونے پر سزا دینا ریلوے انتظامیہ کے لئے سب سے مشکل کام ہے بتایا جاتا ہے کہ اگر کسی بھی حادثہ کے بعد ٹرین ڈرائیور کو ذمہ دار قرار دیا جائے تو اس کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ریلوے انتظامیہ بھی درمیانی راستے نکالنے کی کوشش کرتی ہے اور ایسا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ٹرین ڈرائیور یا اسسٹنٹ ڈرائیور کو زیادہ سخت سزا کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ذرائع کے مطابق سخت سزا کی صورت میں ٹرین ڈرائیور ٹرین انجنوں کی حالت زار کو بنیاد بنا کر قواعد و ضوابط کے تحت ڈیوٹی کرنے یا پھر مکمل طور پر ہڑتال کر کے ٹرین آپریشن کو روک دیتے ہیں جس کے بعد ریلوے انتظامیہ ذمہ دار ڈرائیور کو سخت سزا کی بجائے کم درجہ کی سزا دینے پر مجبور ہو جاتی ہے ذرائع کے مطابق انجنوں کی ہیڈ لائٹس ڈیڑھ سو سے 200 میٹر تک روشنی پھینکتی ہیں جبکہ انجن کو بریک لگانے کے لئے کم از کم 800 میٹر کا فاصلہ درکار ہوتا ہے اسی طرح انجن میں ڈیڈ مین پیڈل‘ ریت بکس خراب ہیں ان کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر ٹرین ڈرائیور قواعد ضوابط کے مطابق ڈیوٹی کرتے ہیں یا پھر ہڑتال کردیتے ہیں۔