اگرچہ وزیراعظم محمد نوازشریف نے طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک نئی پیش رفت کا اعلان کیا ہے، تاہم مختلف سمتوں سے کچھ دیدہ اور نادیدہ قوتیں حالات کو بڑی تیزی سے ایک ہولناک تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ مائل بہ تصادم عناصر، قوم اور اس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو متنبہ کیا جائے کہ وہ کوئی انتہائی فیصلے کرتے وقت ہوش کے ناخن لے اور ملک و ملّت کو تباہی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ آج دانا دشمن اور نادان دوست دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں ملک کو ایک نئے تصادم کی طرف لے جانے میں سرگرم ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ محب وطن دینی اور سیاسی قوتیں خاموش تماشائی نہ بنیں اور ملک کو آگ اور خون کے اس گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت ارکانِ پارلیمنٹ، عسکری قیادت اور میڈیا کے ذمہ دار عناصر حالات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے کر قومی سلامتی اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی اور پروگرام مرتب کریں۔ ہر وہ پالیسی اور اقدام جو بیرونی یا اندرونی دبائو کا نتیجہ ہو یا جسے بڑی حد تک جذبات، غصے اور انتقام کے جذبے کے تحت اختیار کیا جائے، وہ تباہ کن ہوتا ہے۔ دورِحاضر میں اس کی بدترین مثال وہ ردعمل ہے، جو امریکا نے 11ستمبر 2001ء کے دہشت گردی کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعے کے ردعمل کے طور پر اختیار کیا، اور جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ دہشت گردی کا سدِّباب نہ ہوسکا، بلکہ اس کو عالمی سطح پر ہزار گنا زیادہ فروغ حاصل ہوگیا۔ آج دنیا، بشمول امریکا، 2001ء کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی غیرمحفوظ ہے۔ بلاشبہ ان2900 افراد کی ہلاکت ایک دل دوز سانحہ اور کھلا ظلم تھا، جو نائن الیون کے اقدام کا نشانہ بنے۔ لیکن کیا اس حقیقت سے آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ کے نتیجے میں ان تقریباً 3ہزار جانوں کے مقابلے میں افغانستان میں تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار افراد اور عراق میں 6لاکھ افراد موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں۔ صرف افغانستان میں اب تک خود امریکا کے 2806فوجی ہلاک ہوئے اور 18ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ امریکا کے جتنے فوجی افغانستان گئے ہیں ان میں ۰۱فی صد ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوچکے ہیں۔برطانیہ کے 447فوجی ہلاک اور کئی ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ امریکا صرف افغانستان کی جنگ پر ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور برطانیہ 40 ارب پونڈ اس آگ میں جھونک چکا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور ناٹو افواج کو ذہنی اور سیاسی و عسکری دونوں قسم کی شکست سے سابقہ ہے۔
رہی افغان عوام کی حالت ِ زار تو افغانستان کے پے درپے دوروں کے بعد ایک امریکی مصنف اور صحافی پیٹرک کک برن (Patrick Cockburn) کاؤنٹرپنچ کے 13جنوری2014ء کے شمارے میں لکھتا ہے:’’بلاشبہ جو رقم افغانستان پر خرچ کی جارہی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ افغانستان میں خرچ کی جارہی ہے۔ لیکن اس بات کو پیش نظر رکھ کر بھی بہت بڑی بڑی رقمیں خرچ کرنے کے باوجود سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 60 فی صد بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں۔ بہت سے باہر سے رشتہ داروں کی بھیجی ہوئی رقم سے زندہ ہیں یا منشیات کے کاروبار سے جو افغانستان کی قومی آمدن کا 15 فی صد تک ہے۔‘‘اگر امریکا نے جذبات سے مغلوب ہوکر غرور، غصے اور انتقام کی بنیاد پر دنیا کو جنگ میں جھونکا، تو پاکستان کے سیاہ و سفید پر قابض جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے امریکی دبائو میں شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ، اور قومی مفادات اور عوامی جذبات کو یکسرنظرانداز کرکے امریکا کی اس جنگ میں اپنے کو شریک کرکے اپنے مسلمان ہمسایہ برادر ملک پر فوج کشی کے لیے امریکا کو نہ صرف ہرسہولت دے ڈالی، بلکہ اپنی زمینی اور فضائی حدود پر امریکا کو تسلط اور غلبہ عطا کیا۔ اس سلسلے میں سفارتی اور اسلامی آداب کو بھی بُری طرح پامال کیا۔ اس کی شرم ناک داستان پاکستان میں افغانستان کے سفیر مُلّا عبدالسلام ضعیف کی کتاب My Life with the Taliban میں دیکھی جاسکتی ہے۔پاکستان کو ان 12 برس میں دینی، سیاسی، عسکری، معاشی، غرض یہ کہ ہر میدان میں بے پناہ نقصانات ہوئے اور پاکستان عملاً اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم ہوکر رہ گیا۔50ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہارگئے، جن میں 6 سے 8ہزار افراد کا تعلق پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔ زخمیوں کی تعداد اس سے دو تین گنا زیادہ ہے، اور جو نقل مکانی پر مجبور ہوئے ان کی تعداد 30لاکھ سے متجاوز ہے۔ مالی اور معاشی اعتبار سے نقصان کا کم سے کم اندازہ ایک سو ارب ڈالر کا ہے اور سب سے بڑھ کر پورے ملک کا امن اور چین درہم برہم ہوگیا۔
2001ء دہشت گردی آج ملک عزیز کی سلامتی کے لیے ایک اہم ترین خطرہ بن گئی ہے۔ دہشت گردی کی ہرشکل سے نجات وقت کی ضرورت ہے، خواہ اس کا ارتکاب افراد، گروہ یا مسلح تنظیمیں کررہی ہوں یا خود ریاستی ادارے اپنی حدود سے بڑھ کر ان کے مرتکب ہورہے ہوں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت تمام دینی اور سیاسی قوتیں اور قوم کے تمام محب وطن عناصر مل کر قومی سلامتی کی پالیسی مرتب کریں اور سب مل جل کر اس پر عمل کو یقینی بنائیں۔ جذباتی انداز میں یہ کہہ دینا کہ ’’پہلے یہ جنگ ہماری نہیں تھی، لیکن اب بن گئی ہے‘‘ ایک نامعقول اور فریب خوردگی پر مبنی دعویٰ ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی اور اس کی مختلف اقسام اور انکے اسباب سب پر نگاہ ڈالی جائے، اور حالات کے معروضی تجزیے کے بعد ایسی ہمہ گیر پالیسی بنائی جائے، جو مسئلے کے ہرہرپہلو کا احاطہ کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حقائق کو بنیاد بنایا جائے اور جذبات اور تعصبات کو فیصلوں پر اثرانداز نہ ہونے دیا جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38