اپوزیشن اور عوام کے شدید ردعمل کے بعد ہائیکورٹ نے بھی اسے مینڈیٹ سے متجاوز قرار دے دیانئے صوبوں کا پینڈورا بکس کھلا تو شیرازہ بندی ممکن نہیں رہے گی
لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ اور کسی سیاسی جماعت کے پاس نئے صوبے بنانے کا مینڈیٹ نہیں، چند سو ارکان اسمبلی عوام پر زبردستی فیصلے تھوپنا چاہتے ہیں۔ مجوزہ بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے کیخلاف درخواست کی سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس خالد محمود خان نے کہا کہ ارکان پنجاب اسمبلی کی عقل پر ہنسی آتی ہے جنہیں یہ پتہ نہیں کہ بہاولپور صوبہ تھا بھی یا نہیں، حیرت ہے پنجاب اسمبلی نے بہاولپور کی بطور صوبہ بحالی کی قرارداد منظور کی، اگر زبردستی فیصلے تھونپے گئے تو ملک میں انارکی پھیلے گی۔ پنجاب اسمبلی کمیشن کو مسترد کر چکی تو پھر نیا صوبہ کیسے بن سکتا ہے۔ فاضل جج نے مزیدکہا کہ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں نئے صوبے بنانے کا مینڈیٹ شامل نہیں تھا‘ اچانک صوبے بنانے کا خیال کیسے آگیا ،اب انتخابات کا وقت قریب ہے سیاسی جماعتیں عوام کے پاس نئے صوبوں کا منشور لیکر جائیں اور منتخب ہو کر جتنے مرضی صوبے بنائیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اوشتر اوصاف نے حکومت پنجاب کا مﺅقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی نے بہاولپور صوبے کی بحالی اور نئے صوبے کی تشکیل کیلئے قرارداد منظور کی اور قومی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔ موجودہ کمیشن میں پنجاب کی نمائندگی ہی نہیں۔قیام پاکستان کے بعد آبادی اور رقبے کے حوالے سے پانچوں صوبوں میں عدم توازن تھا جس کو ون یونٹ کی صورت میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان دیگر چاروں صوبوں سے بڑا تھا۔ ون یونٹ کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان صوبوں میں کسی حد تک توازن قائم ہو گیا تھا۔ مشرقی پاکستان الگ ہوا تو ون یونٹ توڑ کر پہلے کی طرح صوبوں کی حیثیت بحال کر دی گئی۔ ریاست بہاولپور کو ون یونٹ میں شامل کرتے ہوئے اسکی ریاست کی حیثیت ختم کر دی گئی تھی اور والیانِ ریاست کو یقین دلایا گیا تھا کہ اگر ون یونٹ توڑا گیا تو ریاست بہاولپور کو صوبے کی حیثیت دے دی جائیگی لیکن اس وعدے پر عمل نہیں ہوا۔ شاید کارپردازانِ حکومت نے نئے صوبے کے قیام کی حالات کے تناظر میں ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو البتہ بہاولپور صوبے کی بحالی یا تشکیل کا مطالبہ ضرور سامنے آتا رہا تاآنکہ سرائیکی بیلٹ کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک سامنے آگئی، جس کو 2008ءکے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار کی مسند سنبھالنے والی پیپلز پارٹی کے پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عروج پر پہنچا دیا۔ گزشتہ سال جب عدالتی کارروائی کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ لڑکھڑا رہی تھی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جنوبی پنجاب صوبہ کی تشکیل کی قرارداد پیش کر دی گئی ، اپوزیشن کے احتجاج اور شور شرابے کے دوران اسے منظور بھی کرلیا گیا۔ جس طریقے سے قرارداد منظور کی گئی‘ اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے رچایا گیا ڈرامہ ہے۔ صوبوں کی تشکیل کیلئے آئینی طریقہ کار کو پس پشت ڈال کر قرارداد منظور کی گئی۔ آئین کی دفعہ 239(4) کے مطابق جس صوبے میں نیا صوبہ بنانا مقصود ہو‘ اسکی اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد معاملہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں جاتا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ منظوری دیگی تو کمیشن نئے صوبے کے خدوخال طے کریگا۔ مرکزی حکومت کی طرف سے ”جنوبی پنجاب صوبے“ کے نام پر سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو پی پی پی کی حریف مسلم لیگ (ن) اس سے بھی دوقدم آگے بڑھ گئی۔ اسکی طرف سے پنجاب اسمبلی میں نہ صرف جنوبی پنجاب کی تشکیل بلکہ سابق ریاست بہاولپور کی صوبے کے طور پر بحالی کی قرارداد بھی منظور کرلی گئی۔ اس میں پی پی کے ارکان بھی (ن) لیگ کی حمایت پر کمربستہ پائے گئے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ نے پنجاب اسمبلی کی قرارداد کو ویلکم کہا اور جنوبی پنجاب اور بہاولپور‘ دو نئے صوبوں کے خدوخال طے کرنے کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا۔ اس وقت پنجاب میں برسراقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کو شاید اپنی غلطی کا احساس ہو گیا کہ اس نے کمیشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ چند روز قبل متنازعہ کمیشن جس میں (ن) لیگ کی نمائندگی نہیں تھی‘ ایسی رپورٹ پیش کی جس پر ہر طرف ایک طوفان امڈتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس رپورٹ پر کمیشن کے ممبران بھی متفق نہیں ہیں۔ کمیشن کو دو صوبوں کے خدوخال طے کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا‘ اس نے دو صوبوں کو ایک کی شکل دے کر اس کا نام ”بہاولپور جنوبی پنجاب“ تجویز کردیا۔ اس تجویز اور تشکیل کو بہاولپور اور سرائیکی بیلٹ کے لوگ ماننے کو تیار نہیں۔ میانوالی اور بھکر کو مجوزہ اور متنازعہ صوبے میں شامل کیا گیا ہے جس کے بعد سے ان علاقوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ بہاولنگر کے لوگ بھی پنجاب کی تقسیم کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ زمینی حقائق کے مطابق بھی بہاولپور جنوبی پنجاب کی تشکیل ممکن نظر نہیں آتی۔ صوبوں کی تشکیل کی حتمی منظوری پنجاب اسمبلی نے دینی ہے‘ جہاں مرکز کی حکمران پارٹی کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں سیاسی حمایت کیلئے یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ ہر صورت نیا صوبہ بنائے گی۔ مسلم لیگ (ن) بھی ان علاقوں میں اپنی حمایت کھونا نہیں چاہتی‘ اس لئے وہ بھی نئے صوبوں کی کھل کر مخالفت نہیں کر رہی۔ اسے ہر صورت مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر پنجاب کی تقسیم کی مخالفت کرنا ہو گی ورنہ صوبوں کے قیام کا ایسا پنڈورا بکس کھلے گا جس کی شیرازہ بندی ممکن نہیں رہے گی۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ہتھیلی پر سرسوں جمانے کیلئے کوشاں ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ انتخابات سے قبل نیا صوبہ بن جانا چاہیے۔ پنجاب میں نیا صوبہ بنا تو سندھ کی تقسیم کو بھی نہیں روکا جا سکے گا۔ کراچی اور حیدرآباد پر مشتمل صوبے کے قیام کا مطالبہ اتنا زور پکڑے گا کہ کوئی بھی حکومت اسکے سامنے بند باندھنے سے معذور ہو گی۔ ہزارہ والے محض اپنے صوبے کے نام کی تبدیلی پر الگ صوبے کی تحریک چلا رہے ہیں‘ اس میں مزید شدت آجائیگی۔ بلوچستان کی کوکھ سے پشتونستان کے جنم لینے کو روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ سوات‘ قلات اور خیرپور جیسی ریاستیں بھی الگ شناخت کا علم بلند کرینگی۔ پھر کون ان سب کو روک سکے گا؟۔ ویسے بھی قومی معیشت نئے صوبوں کے قیام کی عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی اور لسانی بنیادوں پر قائم ہونیوالے صوبے تو قومی وحدت کو شدید زک پہنچانے کا باعث بنیں گے۔ سیاست دان نئے صوبوں کی تشکیل کے تنازع کو مزید نہ بڑھائیں۔ انتخابات سر پر ہیں‘ چند ماہ صبر کرلیں۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر‘ عدم تعمیر‘ بھارت کو پسندیدہ قوم قرار دینے اور نئے صوبوں کی تشکیل کی حمایت یا مخالفت کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں۔ عوام جس کو جو مینڈیٹ دیں‘ اقتدار میں آکر اس کو بروئے کار لائیں۔