وکلا کی تحریک جاری و ساری ہے اور وکلا کو اپنے لیڈروں کی پالیسیوں پر بھرپور اعتماد ہے جن میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کے حصول کیلئے جدوجہد شامل ہیں۔ اس موقع پر وکلا کی بے مثال‘ بے لوث اور جاں نثار تحریک کو خراج تحسین پیش کرنا لازم ہے۔ اکثر وکلا اتنے مالدار نہیں ہوتے بس گزر اوقات ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود دو سال سے وہ اس جدوجہد میں مصروف ہیں جس میں عدالتوں کی بندش کی وجہ سے انہیں مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کی ہیں‘ جن میں جسمانی تشدد‘ نظر بندی بلکہ زندہ جلایا جانا بھی شامل ہیں جیسا کہ کراچی میں پیش آیا‘ لیکن اس کے باوجود اُن کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔
وکلا کے علاوہ ننھی منی سول سوسائٹی بھی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ اس میں پڑھے لکھے پروفیشنل قسم کے خواتین و حضرات نے شمولیت اختیار کی۔ گو ان کی تعداد ہزاروں لاکھوں کی بجائے سینکڑوں تک محدود رہی لیکن ان کے منظم اور پرامن جلسوں اور جلوسوں نے بھی ایوانانِ اقتدار کو ہلا دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔ وکلا کی تحریک دراصل کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے سب سے پہلے اس تحریک نے مشرف کو مجبور کیا کہ وہ اپنے آپ کو آرمی چیف کے عہدے سے الگ کرے۔ اس طرح سے مشرف پہلے کی نسبت کافی کمزور ہو گیا اور پھر مختلف اسمبلیوں میں اس کے خلاف تقریباً متفقہ قراردادوں نے اسے صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ اگر اس وقت وہ آرمی چیف بھی ہوتا تو شائد اس کو نکالنا آسان نہ ہوتا۔ جب وکلا تحریک کی روئیداد لکھی جائے گی تو مورخ یہ جاننا چاہے گا کہ وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے یہ نہ صرف جاری و ساری رہی بلکہ وکلا کی محدود تعداد کے باوجود اس کے اثرات بہت گہرے مرتب ہوئے۔ یعنی سیاسی جماعتوں کے ارکان کی تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں میں جاتی ہے جبکہ اس کے برعکس وکلا کی گنتی ہزاروں سے زائد نہیں ہوتی۔ راقم الحروف کی رائے میں اول تو وکلا تعلیم یافتہ ہونے اور خصوصاً قانون سے و اقفیت رکھنے کی وجہ سے قانون کی حکمرانی کی اہمیت کا پورا پورا ادراک رکھتے ہیں اور اس وجہ سے وہ اس سلسلے میں کچھ کر گزرنے کے زیادہ خواہشمند ہوتے ہیں۔
دوئم یہ کہ وکلا وطن عزیز کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر صوبہ‘ ضلع اور تحصیل کے صدر مقام میں موجود ہوتے ہیں۔
سوئم ان کے لیڈران باقاعدہ انتخابات کے ذریعہ سامنے آتے ہیں اور اس لئے انہیں اپنے رفقا کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے کروڑوں ارکان وکلا سے آدھی تعلیم سے بھی آراستہ ہوتے تو ملکی معاملات میں اُن کی طاقت بے پناہ ہوتی۔ دراصل عوام کی اکثریت کو جان بوجھ کر ناخواندہ رکھا گیا ہے کیونکہ ان پڑھ افراد ذہنی طور پر گائے بھینسوں سے معمولی ہی بہتر سطح پر ہوتے ہیں لہٰذا ان پر حکومت کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔
بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وکلا نے جج صاحبان کی بحالی میں اس قدر دلچسپی کیوں لی ہے اور اس سلسلے میں اس قدر تگ و دو کیوں کی ہے؟ دراصل حالت یہ آ گئی ہے کہ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ’’وکیل نہ کرو جج کرو‘‘ ۔ بہرحال وکلا کو متحرک کرنے والے عوامل کوئی بھی ہوں‘ یہ بات مسلمہ ہے کہ ان کی تحریک غیر معینہ عرصہ کے لئے جاری رہنے کیلئے تیار ہے۔
وکلا کی تحریک کے نتیجہ میں اب تک جج صاحبان ضرور بحال ہو گئے ہوتے لیکن شو مئی قسمت کہ مشہور زمانہ ’’ڈیل‘‘ میں جج صاحبان کو بحال نہ کرنے کی ایک شق یقیناً شامل تھی۔ آج اگر زمامِ اقتدار کسی اور فرد کے ہاتھ میں ہوتی تو جج صاحبان کبھی کے بحال ہو چکے ہوتے۔ وکلا کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو کر اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتی۔ وکلا اور سول سوسائٹی کے احتجاجی جلوسوں کے اختتام کی وجہ سے ملکی سیاست میں ٹھہرائو آ چکا ہوتا اور قوم کو درپیش دیگر گھمبیر مسائل کی طرف توجہ مبذول کی جا چکی ہوتی اس وقت وطن عزیز کو ہر شعبۂ زندگی میں بدترین انارکی کا سامنا ہے۔ اس ابتری اور افراتفری کی وجوہات میں پچھلے ساٹھ سال پر محیط ہماری عدلیہ کا ہر ڈکٹیٹر کے ہر غیر قانونی عمل کو تحفظ دینے کا رجحان سرفہرست ہے جس کی وجہ سے تین دہائیوں سے زائد عرصہ کیلئے وطن عزیز پر مارشل لاء کی ننگی لاقانونیت نافذ رہی۔ اس کے بعد کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ ملک میں قاعدہ قانون کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہو۔
اگر ہماری خواہش ہے کہ آنے والے وقتوں میں جج صاحبان کے کردار کا ایک اعلیٰ و ارفع معیار مقرر ہو تو اُس کی ایک ہی صورت ہے‘ اور وہ یہ کہ جج صاحبان کی آسامیاں پر کرتے وقت تمام امیدواروں کے ماضی کے کردار کا خوردبین کے ذریعہ معائنہ کیا جائے اور ہر امیدوار کو عوام کے سامنے اپنے ماضی کے بارے میں جوابدہ ہونا پڑے جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں لازم ہوتا ہے۔ وکلا کو چاہئے کہ جلد یا بدیر اس طرح کے محاسبہ کو اپنے مطالبات میں شامل کریں اگر ایک دفعہ آپ ٹھونک بجا کر پرکھنے کے بغیر کسی کو اعلیٰ عدلیہ میں شامل کر لیتے ہیں تو پھر اس کے غلط کاموں کے بارے میں شکایت کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہے۔ اگر وکلا جج صاحبان کو بحال بھی کروا لیں اور نئے ججز کے انتخاب کے طریقہ کار کو بھی بہتر کروا سکیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی تحریک وطن عزیز کو بالآخر اکیسویں صدی میں لے آئی ہے۔ اس دوران ہر صحیح الخیال فرد کو وکلا اور سول سوسائٹی کے مظاہروں میں شامل ہونا چاہئے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کا بہترین طریقہ ہوگا۔
وکلا کے علاوہ ننھی منی سول سوسائٹی بھی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ اس میں پڑھے لکھے پروفیشنل قسم کے خواتین و حضرات نے شمولیت اختیار کی۔ گو ان کی تعداد ہزاروں لاکھوں کی بجائے سینکڑوں تک محدود رہی لیکن ان کے منظم اور پرامن جلسوں اور جلوسوں نے بھی ایوانانِ اقتدار کو ہلا دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔ وکلا کی تحریک دراصل کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے سب سے پہلے اس تحریک نے مشرف کو مجبور کیا کہ وہ اپنے آپ کو آرمی چیف کے عہدے سے الگ کرے۔ اس طرح سے مشرف پہلے کی نسبت کافی کمزور ہو گیا اور پھر مختلف اسمبلیوں میں اس کے خلاف تقریباً متفقہ قراردادوں نے اسے صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ اگر اس وقت وہ آرمی چیف بھی ہوتا تو شائد اس کو نکالنا آسان نہ ہوتا۔ جب وکلا تحریک کی روئیداد لکھی جائے گی تو مورخ یہ جاننا چاہے گا کہ وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے یہ نہ صرف جاری و ساری رہی بلکہ وکلا کی محدود تعداد کے باوجود اس کے اثرات بہت گہرے مرتب ہوئے۔ یعنی سیاسی جماعتوں کے ارکان کی تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں میں جاتی ہے جبکہ اس کے برعکس وکلا کی گنتی ہزاروں سے زائد نہیں ہوتی۔ راقم الحروف کی رائے میں اول تو وکلا تعلیم یافتہ ہونے اور خصوصاً قانون سے و اقفیت رکھنے کی وجہ سے قانون کی حکمرانی کی اہمیت کا پورا پورا ادراک رکھتے ہیں اور اس وجہ سے وہ اس سلسلے میں کچھ کر گزرنے کے زیادہ خواہشمند ہوتے ہیں۔
دوئم یہ کہ وکلا وطن عزیز کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر صوبہ‘ ضلع اور تحصیل کے صدر مقام میں موجود ہوتے ہیں۔
سوئم ان کے لیڈران باقاعدہ انتخابات کے ذریعہ سامنے آتے ہیں اور اس لئے انہیں اپنے رفقا کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے کروڑوں ارکان وکلا سے آدھی تعلیم سے بھی آراستہ ہوتے تو ملکی معاملات میں اُن کی طاقت بے پناہ ہوتی۔ دراصل عوام کی اکثریت کو جان بوجھ کر ناخواندہ رکھا گیا ہے کیونکہ ان پڑھ افراد ذہنی طور پر گائے بھینسوں سے معمولی ہی بہتر سطح پر ہوتے ہیں لہٰذا ان پر حکومت کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔
بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وکلا نے جج صاحبان کی بحالی میں اس قدر دلچسپی کیوں لی ہے اور اس سلسلے میں اس قدر تگ و دو کیوں کی ہے؟ دراصل حالت یہ آ گئی ہے کہ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ’’وکیل نہ کرو جج کرو‘‘ ۔ بہرحال وکلا کو متحرک کرنے والے عوامل کوئی بھی ہوں‘ یہ بات مسلمہ ہے کہ ان کی تحریک غیر معینہ عرصہ کے لئے جاری رہنے کیلئے تیار ہے۔
وکلا کی تحریک کے نتیجہ میں اب تک جج صاحبان ضرور بحال ہو گئے ہوتے لیکن شو مئی قسمت کہ مشہور زمانہ ’’ڈیل‘‘ میں جج صاحبان کو بحال نہ کرنے کی ایک شق یقیناً شامل تھی۔ آج اگر زمامِ اقتدار کسی اور فرد کے ہاتھ میں ہوتی تو جج صاحبان کبھی کے بحال ہو چکے ہوتے۔ وکلا کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو کر اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتی۔ وکلا اور سول سوسائٹی کے احتجاجی جلوسوں کے اختتام کی وجہ سے ملکی سیاست میں ٹھہرائو آ چکا ہوتا اور قوم کو درپیش دیگر گھمبیر مسائل کی طرف توجہ مبذول کی جا چکی ہوتی اس وقت وطن عزیز کو ہر شعبۂ زندگی میں بدترین انارکی کا سامنا ہے۔ اس ابتری اور افراتفری کی وجوہات میں پچھلے ساٹھ سال پر محیط ہماری عدلیہ کا ہر ڈکٹیٹر کے ہر غیر قانونی عمل کو تحفظ دینے کا رجحان سرفہرست ہے جس کی وجہ سے تین دہائیوں سے زائد عرصہ کیلئے وطن عزیز پر مارشل لاء کی ننگی لاقانونیت نافذ رہی۔ اس کے بعد کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ ملک میں قاعدہ قانون کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہو۔
اگر ہماری خواہش ہے کہ آنے والے وقتوں میں جج صاحبان کے کردار کا ایک اعلیٰ و ارفع معیار مقرر ہو تو اُس کی ایک ہی صورت ہے‘ اور وہ یہ کہ جج صاحبان کی آسامیاں پر کرتے وقت تمام امیدواروں کے ماضی کے کردار کا خوردبین کے ذریعہ معائنہ کیا جائے اور ہر امیدوار کو عوام کے سامنے اپنے ماضی کے بارے میں جوابدہ ہونا پڑے جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں لازم ہوتا ہے۔ وکلا کو چاہئے کہ جلد یا بدیر اس طرح کے محاسبہ کو اپنے مطالبات میں شامل کریں اگر ایک دفعہ آپ ٹھونک بجا کر پرکھنے کے بغیر کسی کو اعلیٰ عدلیہ میں شامل کر لیتے ہیں تو پھر اس کے غلط کاموں کے بارے میں شکایت کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہے۔ اگر وکلا جج صاحبان کو بحال بھی کروا لیں اور نئے ججز کے انتخاب کے طریقہ کار کو بھی بہتر کروا سکیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی تحریک وطن عزیز کو بالآخر اکیسویں صدی میں لے آئی ہے۔ اس دوران ہر صحیح الخیال فرد کو وکلا اور سول سوسائٹی کے مظاہروں میں شامل ہونا چاہئے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کا بہترین طریقہ ہوگا۔