ٹائیں ٹائیں فش 

یونیورسٹی آف نارتھ کےKlaus W Larres کی 2020ءمیں شائع ہونے والی سٹوری کے مطابق، ’مئی 1945ءسے پہلے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل سب سے بڑے مدبر بن کر دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوئے تھے۔ وہ جہاں بھی جاتے، ہر جگہ ان کو تہوار کی طرح celebrate کیا جاتا۔ ان کی مقبولیت کی شرح 83 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ اِن حقائق کے باوجود 1945ءمیں منعقد ہونے والے انتخابات میں وہ بری طرح ہار گئے۔ ان کی کنزرویٹو پارٹی نے 36.2 جبکہ کلیمنٹ ایٹلی کی لیبر پارٹی نے 47.7 ووٹ حاصل کرکے جیت اپنے نام کر لی۔‘ مانا کہ وہ انتہائی قدامت پرست اور سخت متعصب سیاست دان کی شہرت رکھتے تھے۔ فلسطینی قوم کو اپنے ملک فلسطین سے بے دخل کرنے اور امریکی مقامی باشندوں کے مغربی استحصال پر ان کی سوچ میں ہمیشہ زہر بھرا تعصب غالب رہا۔ وہ آخری دم تک برطانوی نوآبادیوں کی آزادی کی مخالفت کرتے رہے۔ یہ حقائق ایسے نہیں تھے کہ برطانوی عوام ان سے خفا ہوتے، بلکہ اِس سے ان کی حمایت میں مزید اضافہ ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہو سکا کیونکہ برطانوی عوام کو جنگ بندی کے بعد ایک جنگجو ماہر کی بجائے تعمیر و ترقی کی راہ پر چلنے والے رہنما کی ضرورت تھی۔
 یہی وجہ تھی کہ ووٹروں نے Vیعنی وکٹری کا نشان دینے والے محسن اور عقیدت و احترام سے تراشے ہوئے صنم کو اگلے پانچ سالوں کے لیے بت کدے سے نکال دیا۔ برطانوی عوام کی سوچ کے مطابق ایسا کرنا ضروری ہو گیا تھا۔بھلے وقتوں میں امریکی حکمران انتہائی اجلے کردار اور اعلیٰ اقدار کا عملی نمونہ اور عوام معیاری اصولوں کے حامل ہوا کرتے تھے۔ انفرادی طور پر کسی امریکی کا ذاتی کردار کتنا برا ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنے لیڈر کے کردار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا کرتا تھا۔ امریکی صدر نکولائی نکسن واٹر گیٹ سکینڈل کی زد میں آئے تو معمولی پس و پیش کے بعد انھیں نہ صرف مستعفی ہونا پڑا بلکہ ان کی رپبلکن پارٹی اگلا الیکشن بھی ہار گئی۔ وقت نے انگڑائی لی تو ماحول بھی بدل گیا۔ کلنٹن، لیونسکی سکینڈل پر عوام کی پیشانیوں پر بل تو پڑے مگر اپنے صدر کی معافی قبول کر لی۔ بل کلنٹن نہ صرف استعفیٰ دینے سے بچ نکلے بلکہ صدارت کی اگلی باری بھی لے اڑے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو 2016ءکے امریکی چناو¿ میں 24 عورتوں نے ٹرمپ کے ساتھ جنسی تعلقات /ہراسانی کے الزامات عائد کر دیے مگر ان کے مداحین نے اِن الزامات کا کوئی منفی تاثر قبول نہ کرتے ہوئے انھیں وائٹ ہاو¿س پہنچا کر ہی دم لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد پی این اے کے رہبروں کا ان پر دل کھول کر کیچڑ اچھالنا ان کی مقبولیت میں کمی نہ لا سکا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ان کی روح پارٹی ووٹ بنک کے intact رہنے کی وجہ سے غاصب کے اعصاب پر آسیب بن کر اِس درجہ سوار رہی کہ وہ بھی طبعی موت سے محروم رہا۔مسلم لیگ نے از خود یا کسی کے ایما پر نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی کردار کشی میں کوئی کمی نہیں رہنے دی تھی تو کیا پیپلز پارٹی ختم ہو گئی؟ ہرگز نہیں۔ پنجاب سے پیپلز پارٹی کے آو¿ٹ ہونے کی وجہ بے نظیر بھٹو کا 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا غیر دانشمندانہ اور غیر سیاسی فیصلہ تھا۔ نواز شریف حکومت میں عمران خان کے خلاف منفی مہم چلتی رہی۔ جمائما خان پر چوری کا مقدمہ بھی قائم ہوا۔ ٹیریان سکینڈل کو ہر دور میں خوب اچھالا گیا اور یہ معاملہ عدالت تک بھی پہنچا۔ چناو¿ کے دنوں میں ریحام خان کی کتاب اور عائشہ گلالئی کی پریس کانفرنسیں پی ٹی آئی کے ووٹروں کو ان سے بدظن کرنے میں یکسر ناکام رہیں۔ عمران خان نے شریف اور زرداری فیملی پر برسوں چڑھائی کیے رکھی، ان کو مختلف ناموں سے پکارا، خواتین پر آوازے کسے، نقلیں اتاریں اور مولانا فضل الرحمن پر طعن و تشنیع کے نشتر چلائے تو کیا وہ ان تینوں پارٹیوں پر کوئی dent ڈالنے میں کامیاب ہوئے؟ ہرگز نہیں۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی پوزیشنوں کی اتھل پتھل شہباز شریف کی اقتدار میں آنے والی حرص کا لازمی نتیجہ قرار دی گئی۔
عمران خان کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی آڈیوز ، ویڈیوز سے ان کے مخالفین کی نفرت میں ضرور اضافہ ہوا مگر یہ اضافہ عمران خان کے ووٹروں کو ان سے متنفر نہ کر سکا۔ خاور مانیکا کا انٹرویو نشر ہونے پر خوب غلغلہ بلند ہوا۔ سوشل میڈیا پر ایک سٹیج ڈرامے اور شان، انجمن کی فلم کے کلپ خوب وائرل ہوئے۔ اِس ’سرگرمی‘ نے عمران خان کے ساتھ ساتھ خاور مانیکا کی سبکی کے سامان زیادہ پیدا کیے۔ ہاجرہ خان پانیزئی کی خود نوشت منظرِ عام پر آنے سے عمران خان کی ذات پر لگے دھبوں میں یقینا ایک اور کا اضافہ تو ضرور ہوا مگر ان کے حمایتیوں نے اسے ایک پراپیگنڈا قرار دے کر مسترد کر دیا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا ووٹر شعور و آگہی میں 1945ءکے برطانوی ووٹر کا مقابلہ ہرگز نہیں کر سکتا تاہم وہ 2016ءکے امریکی انتخابات کی مانند امریکی ووٹروں کی پیروی کرتا ضرور نظر آتا ہے۔ قوم کا سنجیدہ طبقہ تمام سٹیک ہولڈرز سے ملتمس ہے کہ معاملات کو ٹھنڈے دل و دماغ اور افہام و تفہیم سے نپٹایا جائے اور نفرت اور محاذ آرائی بھرے ماضی سے ’بے چارے‘ حال کی جان بخشی کرا دی جائے تو پاکستان کی بہتری کے آثار نمودار ہونا شروع ہوسکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...