کتابیں پڑھنے والی شخصیت…(2)

سُن چنگ نے اپنے بالوں کی بودی یالٹ کاٹ کر چھت کے شہتیر کے ساتھ باندھ رکھی تھی تاکہ مطالعہ کے دوران اگر انہیں نیند آجائے تو اسی کی کھینچ سے وہ پھر دوبارہ پورے انہماک اور توجہ سے اپنا مطالعہ جاری رکھ سکیں ۔
اسی طرح کے ایک اور ہندو طالب علم کے بارے پطرس بخاری نے اپنے مضامین میں ذکر کیا ہے سن چن نے تو اپنے ذوق مطالعہ کو جاری و ساری رکھنے کے لئے کمال طریقہ اختیار کیا اس نے ورمے کے ساتھ اپنی ران میں سوراخ کر کے اس میں دھاگہ ڈال کر بلندی پر لکڑی سے باندھ رکھاتھا تاکہ رات کے وقت مطالعہ کرتے ہوئے وہ سستی اور کسالت سے نیند کی آغوش سے دور رہیں ۔
کورنگ کھنگ بھی مطالعے کا بڑاشوقین تھا مگر غربت کی وجہ سے دئیے کا تیل نہیں خرید سکتا تھا ۔لہٰذا اس نے ہمسائے کی دیوار میں سوراخ کر رکھا تھا اور اس سوراخ سے روشنی کی جو کرن اس کو میسر آتی تھی وہ اس سے کتب بینی کا نشہ پورا کرتا تھا ۔ اور سُنیئے چہیہ ین کمال فطرت کا آدمی تھا ۔جب اس کو مذکورہ بالا کوئی بھی طریقہ میسر نہ آیا تو اس نے کئی جگنو پکڑے اور انہیں ایک سفید شفاف کپڑے کی تھیلی میں بند کر لیا ۔ رات کو جب وہ سب ملکر چمکتے تو اس روشنی سے وہ اپنے مطالعہ کی طلب و تشنگی کو بجھاتا ۔ اب آپ بھی کہیں گے تمہیدہی میں کن کہانیوں میں الجھا دیا اور اس صدر کا نام ابھی تک نہیں بتایا جو اینٹوں ایسی کتابیں پڑھنے کارسیا یاعا دی تھا ۔ تو جناب وہ وہی صدر محترم ہیں جو جوانی میں سو کلو گندم کی بوری کمر پر اُٹھا ئے پانچ کلو میٹر پیدل سفر کرتا تھا اور یوں اپنے بہن بھائیوں اور والدین کی غذائی ضروریات کی کفالت کرتا تھا ، کوئلے سے بھری ہوئی ٹرالیاں کھینچتا تھا، کھیتی باری کرتا تھا، غرض اسے کسی کام میں عار نہ تھی اور آج اس کی محنت اس طرح رنگ لائی ہے کہ وہ تقریباًڈیڑھ ارب چینی عوام کی قیادت کر رہا ہے اور اس کا اسم گرامی ہے جناب شی چن پھنگ جو ہمارے انتہائی قریبی سدا بہار دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کا ۵۱نومبر 2012 سے صدر ہیں اور موجودہ نسل کا نمائندہ بھی، جو عوامی جمہوریہ چین کے یکم اکتوبر 1949 کے قیام کے بعد پیدا ہوئی ابتدائیں اکثر خاصے بزرگ صدر ہوا کرتے تھے۔ جن تین چینی صدور سے مجھے ملنے کا شرف حاصل ہو ا ان میں سے صرف جناب شی چن پھنگ کے پیش رو جناب چن تھائو تھے جو نسبتاًکم عمری یعنی ساٹھ سال کے قریب کم عمرمیں صدر بنے اور اس کے بعد موجودہ صدر ہیں میں چین میں میںنے اپنی تقرری کے دوران اسی طرح کے کئی کتاب میلوں کا اہتمام کیا تھا اور اس میں پاکستان بُک کو نسل کا اسٹال خاصی توجہ کا مرکز رہا۔ چینی خواتیں و حضرات دلچسپی سے پاکستانی کتب دیکھ اور خرید رہے تھے خدا کر کے جس طرح گذشتہ ماہ کراچی اور پھر لاہور میں کتاب میلہ لگا ہوا تھا یہ سلسلہ مختلف جامعات میں جاری و ساری رہے کہ یہی وہ طریقہ اور زریعہ ہے کہ کم وسائل کے باوجود لوگ اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتے ہیں کتاب انکی رہنما بنتی ہے استاد کا فریضہ انجام دیتی ہے کتب بین کے مشتاق اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے نام پیدا کرتے ہیں۔یہ فطترت کاکرشمہ ہے یا اس کی نیک نیتی کی جزا یا حسن عمل کا پھل کہ اب اسے عوامی جمہوریہ جیسی عظیم المی طاقت کا تیسری مر تبہ صدر منتخب کیا گیا ہے۔ (ختم شد)