گوہر نایاب

جنرل سید عاصم منیر پاک آرمی کے 17 ویں آرمی چیف راولپنڈی میں پیدا ہوئے انکے تین بچے ہیں ، والد صاحب شعبہ تعلیم سے وابستہ رھے اسطرح یہ ایک اکیڈمک گھرانہ ھے، ان سے پہلے جوآرمی چیف رہے ان سب میں انہیں منفرد اعزاز حاصل ھے ۔میرے خیال میں یہ انفرادیت بھی انکی شخصیت کا خاصہ ھے کہ وہ پہلے حافظ قرآن سپہ سالار ہیں ان سے پہلے ایسا سپہ سالار نہیں آیا اسکے علاوہ ان میں اور کیا خاص بات ھے ؟ جنرل عاصم منیر کی تعلیمی قابلیت کیا ھے انہوں نے ایسا کیا کیا ہوا ھے جو سابق سپہ سالاروں میں انکے تجربے جیسا بندہ ابھی تک پاک فوج کی قیادت کو میسر نہی آیا ، یہ پہلے آرمی چیف ہیں جو آفیسر ٹریننگ سکول منگلہ کے گریجویٹ ہیں ان سے پہلے جوآرمی چیف آئے وہ یا تو انگریزی دور کے سکول سے پڑھ کر چیف بنے تھے جیسے جنرل ایوب خان وغیرہ یا وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے گریجویٹ تھے، آفیسر ٹریننگ سکول کوہاٹ میں 50 یا 60 کی دہائی میں شروع کیا گیا جب پی ایم اے سے آفیسر کم گریجویٹ کررھے تھے تو آفیسر ٹریننگ سکول کو منگلہ شفٹ کردیا گیا 12 سے 23 کے بیج کے جو آفیسرز ہیں وہ او ٹی ایس کے رھے ہیں۔ او ٹی ایس اور پی ایم اے کے گریجویٹس میں فرق ہوتا ھے، پی ایم اے کا گریجویٹ دو سال کا کورس کرتے ہیں جبکہ او ٹی ایس کا گریجویٹ دس ماہ کا کورس کرتے ہیں اسلئے کہ وہ پہلے سے ہی کسی سول ادارے سے گریجوایشن کرکے آیا ہوتا ھے اسی وجہ سے انکی ٹریننگز بھی مختلف ہوتی ہیں حالانکہ دونوں اداروں کی ایک الگ تاریخ ھے جسے حریف کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا ، او ٹی ایس کے 5-6 آفیسرز 2 سٹار ہیں اسی طرح 3 سٹارز بھی دو یا تین آفیسرز ہیں اسلئے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ او ٹی ایس کے گریجویٹس ٹاپ پوزیشنز میں نہی جاتے حسب حال ایسا نہی ھے ان آفیسرز کو جب کمیشن ملتا ھے تو یہ بھی ان ہی یونٹس میں جاتے ہیں لیفٹیننٹ کرنل تک الگ الگ استحقاق ہوتے ہیں اس کے بعد لانگ ٹرم سروس کمیشن دی جاتی ھے، یہ تو ہوئے انکے دفتری معاملات دوسری جو خاص بات جنرل سید عاصم منیر میں ھے کہ وہ پہلے فور سٹار آرمی چیف ہیں، یہ ( ڈی جی ایم آئی ) اور ( ڈی جی آئی ایس آئی ) بھی رہ چکے ہیں یہ ادارے کیا ہیں اور کیسے یہ جنرل صاحب نایاب تعلیمی پوزیشن رکھتے ہیں، ایم آئی ملٹری انٹیلیجینس کا ادارہ فوج کے اندرونی معاملات اور دشمن فوج کی نقل و حرکت دیکھتا ھے ڈی جی ایم آئی 2 سٹار جنرل کمانڈ کرتے ہیں جبکہ آئی ایس آئی کی سربراہی 3 سٹار جنرل کرتا ھے آئی ایس آئی کا دائرہ کار بہت وسیع ھے یہ سیاسی، اندرونی اور ملک کو درپیش بیرونی سازشی معاملات کے چیلنجز پر نظر رکھتا اور بہت حساس نوعیت کا ادارہ ھے اور یہ جنرل صاحب ان دونوں عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں ان سے پہلے جنرل احسان الحق بھی فور سٹار جنرل تھے جو سابق چیئرمین جوائنٹ چیف تھے البتہ وہ آرمی چیف نہیں تھے، بنیادی طور پر یہ دونوں ادارے آپکو ایک ایسا ادارہ جاتی تجربہ دیتے ہیں جو آپکو دوسرے عام فوجی افسران سے یکسر مختلف اور منفرد کر دیتے ہیں پاکستان کو درپیش سیاسی مسائل اور ملک دشمن بیرونی قوتوں ، بیرونی سازشوں کو اگر کوئی شخص تجرباتی نگاہ سے دیکھ سکتا ھے تو وہ جنرل سید عاصم منیر ہیں، پہلے تو انہیں یہ داد دینی چاہئے کہ انکے پاس اتنی ہائی پروفائل کوالیفیکیشن ھے، یہ فرنٹئیر پوسٹ رجمنٹ کے ہیں انگریزوں کے زمانے کی تین رجمنٹ تھیں فرنٹئیر پوسٹ، پنجاب اور بلوچ رجمنٹ، انگریزوں کے جانے کے بعد سندھ رجمنٹ، آزاد کشمیر رجمنٹ وغیرہ اسکے بعد بنی ہیں۔ سب سے خاص بات فرنٹئیر پوسٹ رجمنٹ کو زیادہ ترجیح دی ھے اس لحاظ سے یہ اس رجمنٹ کے چوتھے آفیسر ہیں جو آرمی چیف تعینات ہوئے ان سے پہلے جنرل راحیل شریف تھے ان سے پہلے جنرل وحید کاکڑ اور جنرل گل افضل خان تھے ساتھ ساتھ یہ ایف سی این اے کے کمانڈر رہ چکے ہیں یعنی فورس کمانڈ ناردن ایریا جسکو آپ کہتے ہیں سب سے بڑا میدان جنگ سیاچین وغیرہ کو انہوں نے کنٹرول کیا ہوا ھے اسکے علاوہ بہت کم لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر نے 3 سال ڈیپوٹیشن بھی کی ھے جس میں انہوں حافظ قرآن ہونے کا شرف بھی حاصل کیا سعودی عرب کے رابطے کا چاھے وہ معاشی ہو یا سیاسی ہو رابطے کی بنیاد کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اب آجاتے ہیں موجودہ ذمہ داریوں کی طرف جس میں انکو تین خاص چیلنجز درپیش ہیں جس کا اس سے پہلے ہماری فوج کے کسی سپہ سالار کو کبھی سامنا نہی کرنا پڑا پہلا چیلنج فوج کے معاملات کو ہموار کرنا ھے فوج کے اندر بھی جو پولرائزیشن ھے اسکی سمت درست کرنا ھے اور فوج کے اوپر جو پچھلے چند مہینوں میں عوام کی طرف سے سوشل میڈیا کے ذریعے جیسی زبان استعمال ہوئی ھے اسکی وجہ سے پہلی دفعہ عوام اور فوج میں پولرائزیشن آئی ھے یہ بڑا نازک حساس مسئلہ ھے اس میں چاھے افواج کی اخلاقیات کا معاملہ ہو یا قیادت کا اتحاد ہو اس مسئلے کو انہیں دیکھنا پڑے گا فوج کا مورال ہائی کرنا ھے اتحاد کی فضا کو قائم کرنا بہت بڑا بنیادی چیلنج ھے، اسی طرح سیاست میں کون حکومت میں ھے کون سڑکوں پر ھے اس کا یہ مطلب نہی کہ فوج کو ریفری کا کردار کرنا پڑے اپنے غیر متنازعہ توازن کا عملی طور پر مظاہرہ کریں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم حکومت کی سیاسی کشیدگی کا پارہ ہائی ھے اسکی طرف بھی نہ چاہتے ہوئے توجہ دینے کی ضرورت ھے افغانستان کی عموماّ بات نہیں کی جاتی لیکن وہ مسئلہ بھی قابل توجہ ھے کیونکہ وہ کسی بھی وقت مسئلہ بن جاتے ہیں ہمارے ہنگامی حالات جو دو جگہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں چل رھے ہیں ان کی جڑیں افغانستان میں ہیں ان پر نظر رکھنا بھی لازمی ھے- پورے پاکستان کو نئے آرمی چیف سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں اب انکو وہ کیسے دیکھتے ہیں یا ایڈجسٹ کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ہماری تو نیک تمنائیں اور خواہشات جنرل سید عاصم منیر کے ساتھ ہیں ۔