اب کیا ہوگا؟
26نومبر 2022ء کو بلآخر سابق وزیر اعظم عمران خان نے راولپنڈی جلسے (بقول ایک حکومتی رکن جلسی )کے اختتام پر آخری پتہ شو کر دیا۔ تاہم اِسے پھینکے کی حتمی تاریخ کو وہ پارلیمانی پارٹی کی مشاورت سے مشروط کر گئے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے تمام اسمبلیوں سے باہر آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لانگ مارچ ختم… اب ہم اسلام آباد نہیں جائیں گے۔ اس طرح وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق’’ وہ ہماری حکومت گرانے آئے تھے اپنی حکومتیں گرا کر چلے گئے‘‘ اب خان صاحب کے اس قطعی غیر متوقع اعلان پر سب حیران و پریشان ہیں کیونکہ نہ صرف حکومت بلکہ تحریک انصاف کی ٹاپ لیڈر شپ کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اپنی سیاست کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کیلئے اتنی جلدی اس سے چھلانگ لگا دیں گے۔ یہ تو ان کا آخری حربہ تھا۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس بارے میں ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ وہیں بیٹھے بیٹھے کیا۔ اگر مذکورہ جلسے میں ان کی توقعات کے مطابق لاکھوںلوگ آجاتے اور یہ ان کے بقول تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا تو وہ یقینا پنڈی سے اسلام آباد کا رخ کرتے (جیسا کہ ان کا پلان تھا) مگر شومئی قسمت کہ ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ قائدین پی ٹی آئی اپنی سر توڑ کوششوں کے باوجود عوام کا سونامی نہ لاسکے۔ اور خان صاحب کے تمام منصوبے دھر ے رہ گئے۔ اب کارکنوں کو تو کسی نہ کسی طرح مطمئن کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ انہیں فوری طور پر یہی سمجھ میں آیا کہ بھولی قوم کو ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے۔ اب حکومت اور اپوزیشن (پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی) کے خوب سینگ پھنسے ہیں۔ پی ٹی آئی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی اپنی حکومتیں گرانے اور پی ڈی ایم انہیں بچانے کیلئے کوشاں ہے اور ایسا شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہورہا ہے ، دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا کیا ہے؟
سردست تو دونوں طرف سے بڑے بڑے دعوے اور بڑھکیں سامنے آرہی ہیں۔ نتیجہ کیا ہوگا یہ خدا جانے کیونکہ وطن عزیز کی سیاست کے بارے یقین سے کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی۔ یہاں کسی اور طرح کی پالیٹکس ہوتی ہے۔ بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ آئندہ چند دنوں تک لاہور اور پشاور میں ایک مرتبہ پھر ضمیر جاگنے والے ہیں یا گھوڑوں کی منڈی لگنے والی ہے۔ اب آتے ہیں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی طرف خدا کا شکر ہے کہ یہ مرحلہ بحسن و خوبی انجام پاگیا اور فوج کے نئے سربراہ اپنے عہدے پر متمکن ہو گئے۔ اگرچہ عمران خان صاحب نے اسے متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن صدر ڈاکٹر عارف علوی نے پی ٹی آئی کی بجائے خود کو پاکستان کا صدر ثابت کیا اور یوں انہوں نے نہ صرف اپنے آپ کو متنازعہ ہونے سے بچا لیا بلکہ اپنے پارٹی چیئرمین کے مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات کی بنیاد بھی ڈال دی۔ دراصل خان صاحب نے صدر علوی کو لاہور اسی لیے بلایا تھا کہ اگر اْن کی مرضی کا آرمی چیف تعینات نہیں ہوسکا تو سید عاصم منیر کی توثیق کرنے والوں میں تو وہ شامل ہوجائیں۔ یعنی یوسف کے خریداروں میں ان کا نام بھی آجائے۔ آخر میں تھوڑا سا اس مہم کا ذکر جو جنرل قمر جاوید باجوہ کے جانے کے بعد اْن کے خلاف چلائی جارہی ہے۔ اس مہم میں سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے اہم رہنما بھی شریک ہیں۔ ہم نے خود دیکھا اور سنا کہ سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی جنرل عمر کے فرزند اسد عمر نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ عمران خان کے خلاف اپریل 2022 میں لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کو اگر جنرل باجوہ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو ان کی حکومت نہیں گرائی جاسکتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ 2018 میں اگر پی ٹی آئی کو جنرل باجوہ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو کیا ان کی حکومت بنائی جاسکتی تھی؟ اسد عمر صاحب اس کا جواب دینا پسند کریں گے۔ عمران خان تخت سے کیا اترے کہ انہیں اقتدار میں لانے والی فوج اور اس کے سربراہ کو انہوں نے نشانے پر رکھ لیا۔ گزشتہ 9ماہ کے دوران کونسا ایسا ’’ لقب‘‘ ہے جو جنرل باجوہ کو نہیں دیا گیا۔ اس کے جواب میں باجوہ صاحب نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جبکہ جنرل باجوہ کی سبکدوشی کے بعد تو جیسے گالم گلوچ کا طوفان آگیا ہے۔ ویسے تو یہ ہمارا مجموعی روّیہ ہے کہ ہم ہر آنے والے کو سیلوٹ کرتے ہیں اور جانے والے کو ہوٹ… مگر پی ٹی آئی کے محبان نے تو اخلاقیات کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے محسن کشی کی مثال قائم کی ’’ حضرت علی ؓ کا وہ فرمان یاد آرہا ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بھی بچو‘‘