پاک فوج اور قائداعظم

یہ سال 2022 کا آخری مہینہ ہے اور یہ مہینہ پاکستان کیلئے انتہائی اہم ہے، اس مہینے کے آغاز میں حافظ جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ وہ فوج کے مورال کو عوام میں بلند کرنے کا باعث بنیں گے کیوں کہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوج کی سربراہی کرنا نہ صرف ایک اعزاز کی بات ہے بلکہ یہ انتہائی پیشہ ورانہ تقاضوں کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ اس سیٹ پر یا اس عہدے پر فائض ہونے والے کوئی عام افراد نہیں ہوتے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو لیفٹیننٹ کی چھلنی سے گزر کر کپتان بنتے ہیں اور پھر کیپٹن کے امتحان سے گزر کر میجری کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں (پاک فوج میں بھرتی ہونے والے اسی فیصد سیکنڈ لیفٹیننٹ میجر بن کر ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں) جب میجری کے تقاضوں کو نباہتے ہوئے تجربہ کار فوجی افسر بن جاتے ہیں تو لیفٹیننٹ کرنل سے کرنل کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہیں،اور جب کرنل کی سیڑھی پر اپنے پاؤں جما چکے ہوتے ہیں تو پھر وہاں سے ون سٹار جرنیلی کا سفر شروع ہوتا ہے جو انہیں مزید بلندیوں کی جانب لے کر جاتا ہے یعنی وہ بریگیڈیئر بنتے ہیں اور ملک و قوم کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے کرتے میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل بننے کا سفر طے کرتے ہیں اور پھر قسمت نے یاوری کی تو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی فوج کی سربراہی کا اعزاز ملتا ہے۔ کہنے کو تو یہ چند الفاظ ہیں لیکن ان میں ایک پوری زندگی بسی ہوئی ہے اور یہ کوئی معمولی سفر نہیں ہے۔ اس میں ایک عمر لگتی ہے بقول شاعر
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
یعنی یہ ایسی شمع ہے جو اندھیروں میں جلتی ہے تا کہ پاکستان کہ باسی سحر نمودار ہونے تک کہیں بھٹک نہ جائیں۔ دوسرا دسمبر کے مہینے میں ہی بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔
قائداعظم محمد علی جناح وہ شخصیت ہیں جنہوں نے جدو جہد آزادی کو لیڈ کیا اور بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن لے کر دیا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ محمد علی جناح کی شخصیت کا ہی اعجاز ہے کہ آج پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ وگرنہ نہرو، پٹیل، گاندھی یا کانگرس کے دیگر رہنماؤں کو اگر علم ہوتا کہ محمد علی جناح ٹی بی کے مریض ہیں تو شاید بر صغیر کا جغرافیہ ہی کچھ اور ہوتا کیوں کہ نہرو یا گاندھی کبھی بھی نہ چاہتے تھے کہ بر صغیر تقسیم ہو اور مسلمان ایک الگ ملک میں رہائش پذیر ہو کر بھارت کو آنکھیں دکھائیں۔ نہرو اور گاندھی کی خواہش تھی کہ ہندوستان ایک متحدہ ریاست کے طور پر ہی رہے اور پاکستان دنیا کے نقشے پر نہ ابھرے۔
قائداعظم محمد علی جناح بھی یہ چیز جانتے تھے کہ انکے بعد مسلمانوں کے پاس برصغیر میں ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے جو نہرو یاگاندھی کی شخصیت کا مقابلہ کر سکے اس لئے انہوں نے بھی اپنی بیماری کو برسوں تک اپنوں پرائیوں سمیت ہر ایک سے چھپائے رکھا۔
پاکستان بننے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کو قدر ت نے اتنا موقع نہ دیا کہ وہ ایک طویل عرصہ تک پاکستان کی خدمت کر سکتے لیکن وہ ایک واضح لائحہ عمل دے گئے اور اصول بتا گئے کہ ان پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم صحیح معنوں میں روشن پاکستان بنا سکتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کا ویژن ہی تھا کہ انہوں نے پاکستان کا پہلا وزیر قانون ایک ہند وکو بنایا اور ہندو بھی وہ جو ہندوؤں کی نچلی ذات سے تعلق رکھتے تھے۔
قائداعظم ایساپاکستان چاہتے تھے جہاں مسلمان اور اقلیتیں مل کر رہیں ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہو اور ہر کوئی اپنے طور طریقوں کو اپنانے میں آزاد ہو۔ کسی پر کوئی ریاستی، مذہبی، فرقہ واریت کا جبر نہ ہو۔ بدقسمتی سے قائد کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہمارے ارباب اختیار نے قائد کے فرامین کو فراموش کرکے ایک ایسے پاکستان کو پروان چڑھایا جس میں فرقہ واریت، مذہبی عدم برداشت، سیاسی ریشہ دوانیاں اور سماجی بیماریاں پیدا ہوئیں جو آج تک پاکستان کا پیچھے نہیں چھوڑ رہیں۔ پاکستان کو اگر ہم نے ترقی یافتہ، تہذیب یافتہ اور جدید دنیا کے مقابل کھڑا کرنا ہے تو ہمارے ارباب اختیار کو یہ بات پلے باندھنی ہو گی کہ قائد کے فرامین پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم یہ منزل حاصل کر سکتے ہیں۔
ہر سال پچیس دسمبر کا دن ہمیں یہ یاد دلانے ہی آتا ہے کہ اس دن ایک عظیم لیڈر کا جنم ہوا تھا جو اس ملک کو ریاست مدینہ کے اصولوں پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ان کا جنم دن کیوں کہ اسی مہینے آ رہا ہے تو ایسے میں ہمارے ارباب اختیار کو وعدہ کرنا چاہئے کہ ہم ملک کو قائداعظم کے اصولوں پر چلائیں گے اور پاک فوج کو مضبوط کرنے کیلئے قائد کی حکمت عملی پر عمل کریں گے کیوں بانی پاکستان کی خواہش تھی کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہو اس کیلئے مضبوط فوج کی ضرورت ہے۔جس طرح فوج کا فرض ہے کہ وہ وطن کی سرحدوں کی حفاظت بغیر کسی لالچ اور صلے کے کرتی ہے تو اسی طرح جوابی طور پر پاک فوج سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہونا چاہئے اور قائد کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے فوج کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئے کیوں کہ قائداعظم نے سٹاف کالج کوئٹہ میں اپنے خطاب میں کہا تھاپاکستانی فوج شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی پاسبان ہے‘ اس لئے کہ اس کے کاندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اور جس وفاداری سے یہ اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اگر آپ نے اسے جاری رکھا تو پھر پاکستان کو کسی بات سے بھی ڈر نے کی ضرورت نہیں ہے۔جس طرح فوج کی قیادت مضبوط ہاتھوں سے ہوتے ہوئے حافظ جنرل عاصم منیر تک پہنچی ہے تو ہمیں یہ یقین ہونا چاہئے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔
٭…٭…٭