عمران خان کے چکناچور خواب
سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں کی ممکنہ تحلیل کے اعلان کے بعد سے سیاسی کشمکش عروج پر ہے حالانکہ خیال تھا کہ لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد سیاسی استحکام ہو جائے گا اور عمران خان بھی آئندہ الیکشن کیلئے حکمت عملی ترتیب دیں گے جبکہ دوسری جانب پی ڈی ایم کی قیادت تو پہلے ہی پنجاب پر قبضہ جمانے کیلئے پر تول رہی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ عمران خان اس کا نشانہ بھانپ کر اسی کو ٹارگٹ کر رہے ہیں تو یہ درست ہوگا کہ عمران خان پی ڈی ایم سے ایک قدم آگے کی سوچ رہے تھے اورسیاسی طور پر ان کی یہ چال کامیاب ہو ئی ہے کیونکہ اس چال نے انکی سیاسی ناکامی کو ایک بار پھر ایک نیا محاز فراہم کردیا ہے اور انہیں اور ان کی پارٹی کو مناسب فیس سیونگ مل چکی ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں پنجاب اسمبلی کی ممکنہ تحلیل روکنے کی پلاننگ کررہی ہیں حالانکہ یہ کام انہوں نے لانگ مارچ کے بعد کرنا ہی تھا کہ پنجاب میں اپنا سی ایم لائیں لیکن عمران خان کی کامیاب حکمت عملی سے اب وہ یہی کام عمران خان کے دبائو میں آکر ،اور عمران خان کو ایک ناکام لانگ مارچ سے مایوس ہونے کی بجائے فیس سیونگ بھی مل چکی ہے۔ قارئین عمران خان مسلسل محاذ آرائی کی سیاست کر رہے ہیں لیکن وہ ایک ٹارگٹ اچیو نہیں کرسکے ہیں نہ وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتے نہ الیکشن کا مطالبہ تسلیم کروا سکتے ہیں۔ امریکی سازش کا بیانیہ زمین بوس ہوا اور الٹا گھڑی چور کی آوازوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کے چودہ طبق روشن کردیئے ہیں۔ ناکامیوں کے اس سفر کوجنرل فیض حمید کے استعفے نے منزل سے ہمکنار کردیا ہے لیکن اسکے باوجود کمال ڈھٹائی کا عالم ہے کہ تحریک انصاف کے ورکر اور لیڈر عمران خان پنجاب اور کے پی کے حکومت تحلیل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں جو عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔وہ کیسے ممکن نہیں ہے اسکا جائزہ بھی لیتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب چوپدری پرویز الٰہی بظاہر یہ بیان دے رہے ہیں کہ وہ عمران خان کے ایک اشارے پر پنجاب اسمبلی کو تحلیل کردیں گے جس کا مطلب بین السطور یہی ہے کہ پی ڈی ایم والو مجھ سے رابطہ کرو کیونکہ میں پنجاب اسمبلی تو ڑنا نہیں چاہتا۔اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ودیگر اتحادیوں کی تعداد کو مد نظر رکھیں تو ان کے پاس اکثریت نہیں ہے اور وہ تحریک عدم اعتماد لے بھی آئیں تو وہ کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ اسکے باوجود پنجاب اسمبلی کی تحلیل عمران خان کی خواہش کے مطابق ممکن نہیں ہے کیو نکہ پی ٹی آئی کے اراکین کی اکثریت اس پر آمادہ نہیں ہے اور پنجاب اسمبلی کے مسلسل چلائے جانے والے اجلاس سے سب اراکین خوب مزے لوٹ رہے ہیں۔ ٹی اے ڈی اے بنائے جارہے ہیں حالانکہ عوام کے مفاد کا کوئی قانون نہیں بن رہا پھر بھی خاص حکمت عملی کیساتھ مسلسل اجلاس کو جاری رکھا جارہا ہے۔سب سے بڑھ کر جو اہم معاملہ ہے وہ ہماری معیشت ہے۔ پاکستان کو جن اقتصادی مسائل کا سامنا ہے ان حالات میں سیاسی عدم استحکام کسی طور پر بھی ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ حالات کا جبر ہے کہ عمران خان کی خواہش پوری نہیں ہوسکے گی نہ تو پنجاب اسمبلی تحلیل ہو گی نہ ہی مقررہ مدت پر الیکشن ہوسکتے ہیں بلکہ وفاق کی جانب سے ممکن ہے کہ چھ ماہ تک حکومت کی مدت میں اضافہ کردیا جائے اور معاشی حالات یہ سب کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔