پارلیمانی محاذ آرائی کے نتائج
عمران خان نے لانگ مارچ کے آخری مرحلے پر راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں گے اور پھر اس کے بعد وفاقی حکومت نئے انتخابات کرانے پر مجبور ہو جائے گی۔عمران خان کے اس اعلان کے بعد حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان پارلیمانی محاذ آرائی اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے۔ اتحادی حکومت ہر حربہ اختیار کرے گی کہ اسمبلیاں ٹوٹنے نہ پائیں ۔ایک سوال جس کا آج تک جواب سامنے نہیں آیا اور نہ ہی یہ سوال میڈیا کی جانب سے کبھی اٹھایا گیا ہے حالانکہ یہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل سوال ہے کہ جب پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بروقت اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش کی جا رہی ہے جس میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ بھی ملوث ہے۔عمران خان کے پاس پارلیمنٹ کے اندر اکثریت نہیں تھی کہ وہ اپنی حکومت کو ٹوٹنے سے بچا سکتے اور عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ کرکے اس تحریک کو ناکام بنا دیتے۔اس مرحلے پر عمران خان کے پاس آئینی اختیار موجود تھا جسے وہ استعمال کرکے قومی اسمبلی کو توڑ سکتے تھے اور اس کے بعد قومی اسمبلی کے نئے انتخابات ہو جاتے۔ اس وقت عمران خان کی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومتیں بھی موجود تھیں۔اگر عمران خان مناسب وقت پر قومی اسمبلی کو توڑ دیتے تو ان کی مخالف اتحادی جماعتیں کبھی حکومت نہیں بنا سکتی تھیں اور آج پاکستان جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے اس سے بھی بچا جا سکتا تھا۔عمران خان نے کبھی اس کی وضاحت نہیں کی کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے انہوں نے اپنا آئینی اختیار استعمال نہ کیا اور قومی اسمبلی کو نہ توڑا۔ اس کے نتیجے میں اتحادی حکومت مرکز میں اقتدار میں آگئی اور اس نے نیب کے قوانین بھی تبدیل کر لیے اور احتساب سے بچ گئے۔
اگر عمران خان کی سیاست کا سنجیدگی کے ساتھ تحقیقی جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ ان میں ولولہ جذبہ جوش جنوں اور سرگرمی موجود ہے مگر سیاسی بصیرت اور فراست موجود نہیں ہے۔وہ اپنی سیاسی زندگی میں اکثر اوقات حکمت اور دانائی پر مبنی سیاسی فیصلے لینے سے قاصر ہی رہے ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ عمران خان نے اتحادی حکومت کو سنبھلنے کا موقع دے دیا اور ان کے ہاتھ میں جو پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی کو توڑنے کا کارڈ موجود تھا اس کو وہ بروقت استعمال نہیں کر سکے۔وہ لانگ مارچ کو فر لانگ مارچ کی طرح چلاتے رہے اور اس طرح وقت گزارتے رہے۔پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو آٹھ ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے اور اب عمران خان کو یہ خیال آیا ہے کہ وہ لانگ مارچ کے ذریعے تو حکومت کو نئے انتخابات کرانے پر مجبور نہیں کر سکے لہذا اگر وہ وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کو توڑ دیں اور تحریک انصاف کے اراکین سندھ کی نشستیں بھی چھوڑ دیں تو اس محاذ آرائی کے نتیجے میں ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس نئے انتخابات کرانے کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔اتحادی حکومت ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ پارلیمانی محاذ آرائی کے نتیجے میں اس کو نئے انتخابات کی طرف جانا پڑے ۔ اسکی خواہش اور ایجنڈا یہ ہے کہ انتخابات اگلے سال اکتوبر میں کرائے جائیں اور اس سے پہلے ایسے فیصلے لیے جائیں جن سے عوام کی نظروں میں ان کا گراف بڑھ جائے۔اس سلسلے میں میاں نواز شریف کو ڈرامائی انداز سے پاکستان واپس لایا جائے گا۔ اور ان کی قیادت کو استعمال کرکے کوشش کی جائے گی کہ ایک بار پھر مسلم لیگ نون کو عوام کے اندر پذیرائی حاصل ہو جائے۔اتحادی حکومت یہ کوشش کرے گی کہ وہ پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں وزیر اعلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دیں تاکہ وزیر اعلی اسمبلی کو توڑنے کا اختیار ہی کھو بیٹھے ۔افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کے آئین کے چور دروازوں کو کبھی بند کرنے کے لیے سوچ بچار نہیں کی۔اور ایسی قانون سازی نہیں کی گئی اور نہ ہی آئین میں ترمیم کی گئی ہے کہ جس کے نتیجے میں آئین بالکل واضح ہو جائے اور جو بھی صورتحال پیدا ہو اس کا حل آئین میں موجود ہو۔عمران خان اور تحریک انصاف کے دوسرے لیڈروں کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں اور ان کی حکومتیں ختم ہو گئیں تو ان کی مخالف وفاقی حکومت ریاستی مشینری کو استعمال کرکے اگلے انتخابات سے قبل ان کے خلاف مقدمات قائم کرکے سخت مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
ماضی میں بھی کئی دفعہ ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے کہ آئینی بحران پیدا ہوا اور اس کے بارے میں آئین خاموش تھا۔ سیاست دانوں کو سپریم کورٹ کا رخ کرنا پڑا ۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو توڑنے کے سلسلے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ آئین اس صورتحال کا مکمل حل پیش نہیں کرتا لہذا ایک بار پھر سیاسی جماعتوں کو سپریم کورٹ میں جانا پڑے گا اور ان سے سے انتخابات کے بارے میں ڈائریکشن لینی پڑے گی۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان پارلیمانی اور آئینی بحران پیدا تو کر سکتے ہیں مگر اس کو حل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔آئین اور پارلیمنٹ کے امور کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ نئے انتخابات کا فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا پڑے گا۔ کیونکہ آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے نئے انتخابات کرانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔اسمبلیوں کے انتخابات پانچ سال کی مدت کے لئے ہی ہوتے ہیں۔ آئینی مدت کے دوران اسمبلیوں کا دوبارہ انتخابات کرانا انتہائی مشکل کام ہے۔ کیونکہ اس پر اربوں روپے کے اخراجات آتے ہیں۔نئے انتخابات کے سلسلے میں ابھی تک صورتحال کوئی واضح نہیں ہے۔ کوئی بھی وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہ سکتا چند ہفتوں کے بعد صورتحال کیاہو جائے گی۔سیاسی بصیرت اور دانش کا تقاضا تو یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں گول میز کانفرنس بلا کر اپنے سیاسی معاملات حل کریں۔
پارلیمانی محاذ آرائی اگر شدت اختیار کر گئی تو اس کا فائدہ سیاستدانوں کو نہیں بلکہ غیر سیاسی اداروں کو ہی ہوگا ۔پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کمزور ہوجائے گی جبکہ غیر جمہوری ادارے مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔پاکستان کے مقتدر ادارے بے شک سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کر بھی دیں اس کے باوجود سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے غیر سیاسی ادارے سیاستدانوں پر حاوی رہیں گے۔اگر سیاستدان یہ چاہتے ہیں کہ کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اپنے وعدے کے مطابق سیاست میں مداخلت نہ کرے تو ان کا قومی فرض ہے کہ وہ ایسے حالات بھی پیدا نہ کریں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنے کی ذمہ داری لینی پڑے۔عمران خان اب ماشاء اللہ پاکستان کے تجربہ کار اور مقبول سیاست دان ہیں اور پاکستان کے عوام ان سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ سیاست اور جمہوریت کے سلسلے میں جذبہ اور جنون کی بنیاد پر نہیں بلکہ حکمت اور دانائی کی بنیاد پر فیصلے کریں گے تاکہ یہ ان کے فیصلے پاکستان اور عوام دونوں کے لیے مفید ثابت ہوں۔انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک جانب پاکستان معاشی حوالے سے دیوالیہ پن کا شکار ہے اور دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان نے پاکستان کے اندر دہشت گرد حملے کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ ان حالات میں قومی مفاد کا یہی تقاضا ہے کہ سیاست دان عدم استحکام سے گریز کریں اور سب مل کر پاکستان کو لاحق معاشی اور سکیورٹی کے چیلنجوں کا مقابلہ کریں۔ افسوس سیاست دان ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے پارلیمانی محاذ آرائی میں اضافہ ہی کرتے چلے جا رہے ہیں۔
٭…٭…٭