جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی
جنوبی وزیرستان میں واقع اعظم وارسک آرمی پبلک سکول کے قریب فورسز پر ہونے والے حملے کے بارے میں تاحال یہ تو واضح نہیں ہوا کہ یہ حملہ کس نے اور کیوں کیا تاہم یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب چند روز پہلے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ملک بھر میں کارروائیاں کریں۔ اس حملے میں ایک شہری جاں بحق ہوا جبکہ ایف سی اہلکار زخمی ہو گیا۔ سکول میں یومِ والدین کی مناسبت سے ایک تقریب تھی جس میں ایک اعلیٰ افسر بھی شریک تھے۔ تقریب کے بعد سکول سے نکلنے والے قافلے پر فائرنگ کر دی گئی۔واقعے کے فوری بعد سکول کے بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ سال اکتوبر میں شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد فریقین کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ بھی ہوا جو تقریباً ایک ماہ کے بعد ختم ہوگیا۔ مذاکرات کے سلسلے کا رواں برس کے وسط میں دوبارہ آغاز کیا گیا تاہم وفاق کے سابقہ زیر انتظام علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو ختم کر کے فاٹا کی حیثیت بحال کرنے پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ اس کے بعد ٹی ٹی پی کی طرف سے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی اداروں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اکتوبر میں وفاقی وزارتِ داخلہ نے باضابطہ طور پر خبردار کیا کہ حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات کے عمل میں تعطل آنے کے بعد ملک بھر میں تخریب کاری کی کارروائیوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ بعد ازاں، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیش نظر حکومت سے کہا کہ وہ دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے کی اپنی حکمت عملی پر نظرِ ثانی کرے۔ یہ نہایت سنجیدہ صورتحال ہے جس پر حکومت اور متعلقہ اداروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ ہماری سکیورٹی فورسز نے بہت سی قربانیاں دے کر دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا ہے، اب ہمیں کسی بھی صورت یہ ممکن بنانا ہوگا کہ وہ عفریت دوبارہ بے قابو نہ ہو جائے۔