جنرل عاصم منیر کی حکمت عملی

صد شکر،وہ نہیں ہوا جسکا اندیشہ تھا، ورنہ وطن عزیز میں جو ہوسکتا تھا سوچ کر بھی جھر جھری آتی ہے۔یقینا اپنی جانب سے نقائص سے پاک منصوبہ بندی کرنے والے بھی ’’دارِگمنامی‘‘ سدھار چکے ہیں۔ ثابت ہوا کہ دْنیا میں کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے، پھر بھی اگر کوئی غلط فہمی کا شکار ہے تو قبرستان چکر لگا کر دیکھ لے۔ ایسوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں جو کہتے اورسمجھتے تھے کہ وہ ناگزیر ہیں،دْنیا،سسٹم اور ادارے انکے بغیر نہیں چل سکتے۔ایسے ناگزیروں کے لئے استعفی ہی آخری آپشن تھا ورنہ جو کارروائی ہونے جارہی تھی یقینا تگنی کا ناچ نچوا کر رکھ دیتی۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ایک جذباتی اور دور اندیشی سے عاری رہنما ہیں، تو وہ ایک بڑے مغالطے میں ہیں۔حقیقت حال تو یہ ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی پتے بڑی دانشمندی سے کھیلتے ہیں۔ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔
وہ یقینا جانتے ہیں کہ وہ جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں شریف آدمی نہیں بلکہ "مولا جٹ " لوگوں کا ہیرو ہے۔چنانچہ انہوں نے بڑی ذہانت کے ساتھ مولا جٹ کا روپ دھار لیا ہے۔وہ خوش قسمت رہے کہ اقتدارکی غلام گردشوں میں پہنچنے اور اقتدار سے باہر نکالے جانے کے باوجود ملک کی بعض طاقتور شخصیات ان کی پشت پر کھڑی رہیں۔لڑائی تو تھی ایک طاقتور ادارے کے کچھ طاقتور افسران کی۔ تاہم یہ گزشتہ کچھ ماہ کے دوران پاکستان کی سڑکوں پر سیاسی کشمکش کی صور ت میں لڑئی گئی۔عمران خان نے اس دوران اپنے سارے پتے بڑی حکمت اور دو راندیشی کے ساتھ پھینکے۔لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ پھر بھی ایسا کیا ہوا کہ اسلام آباد پہنچ کر استعفیٰ لینے کی باتیں کرنے والے آج استعفے دینے او ر صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں؟ جواب بہت سادہ سا ہے، چاہے عمران خان کی ساری سیاسی چالیں درست چلی گئیں لیکن ایک چال ایسی تھی جس نے اْن کے سارے کھیل کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ وہ یہ کہ اگر عمران خان کو گولیاں لگنے کے مبینہ واقعہ کے فوراًبعد چالیس پچاس ہزار لوگ بھی احتجاج کرنے کے لئے باہر نکل آتے تو اس ملک کا منظر نامہ یقینا مختلف ہوتا۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان ایک بڑی افراتفری اور انارکی سے بچ گیا۔
ایسے میں پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے بھرپور کوشش کی گئی کہ احتجاج کا رْخ خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب موڑا جائے تاہم عوام کی عدم دلچسپی کے باعث یہ کوشش بار آور نہ ہوسکی۔ پشاور اور اسکے بعد لاہور میں احتجاجی مظاہرین کا کینٹ کے علاقہ میں پہنچنا یقینا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
چند روز قبل گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے ملاقات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ ہماری یہ بھرپور سعی ہے کہ پنجاب اسمبلی نہ ٹوٹے۔یہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں اور انشااللہ ایسا ہی ہوگا۔ تاہم ہم وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے بھی کہہ سکتے ہیں۔نواز لیگ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے اس ممکنہ اقدام کو روکنے کے لیے انکے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہے۔ اسکے لئے بھرپور تیاری کی جارہی ہے۔
اور اگر یہ دونوں آپشن کامیاب نہ ہوئے تو پھر گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بالخصوص کافی متحرک ہیں۔ لاہور کا محاذ حمزہ شہباز شریف نے سنبھال رکھا ہے جو ان دنوں اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز سے ’’ میراتھن‘‘ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔گورنر پنجاب بھی اسلام آباد یاترا کرکے حکومت سے نئی ہدایات لے چکے ہیں۔دوسری جانب یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ پرویز الٰہی باوجود اس اعلان کے کہ جیسے ہی عمران خان اشارہ کرینگے وہ پنجاب اسمبلی توڑ دینگے، دوسرے آپشن پر بھی غور کر رہے ہیں۔ ان کے بعض رفقاء چاہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی برقرار رہے اور سیاسی جنگ کو لڑنے کے لیے دیگر آپشنز بھی استعمال کیے جائیں۔
سیاسی رشہ کشی کی اس فضاء میں فوج کی کمان کی تبدیلی خوش اسلوبی سے سرانجام پا چکی ہے۔فوج کے نئے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کے بارے میں جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ خاصی خوش آئند ہیں۔انشاء اللہ اس سے ملک و قوم اور پاک فوج کے لئے خیر ہی برآمد ہوگا۔ اطلاعات یہی ہیں کہ عمران خان کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ان سے نہیں ملے ۔ صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے بھی اس تناظر میں کی گئی کوششیں بار آور نہیں ہوسکیں۔ یہ اس امر کی جانب واضح اشارہ ہے کہ وہ سیاست سے دور رہنے کی ادارہ جاتی پالیسی پر کاربند رہیںگے ۔تاہم یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ ملک میں سیاسی رشہ کشی ہنوزایسے ہی رہے گی تو فوج کب تک میدانِ سیاست سے دور رہ سکے گی۔ ایسے میں ان مایوس عناصر کی کارروائیوں پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو پاکستان میں طوائف الملوکی پیدا کر نا چاہتے ہیں۔ تاہم کیا وہ آرام سے بیٹھیں گے؟ اس سوال کا جواب بھی جلد یا بدیر سامنے آہی جائے گا۔ خوش آئندہ امر یہ ہے کہ ملک کا سسٹم چلتا رہے گا۔ تاہم کیا عوام کی مشکلات میں کوئی کمی واقع ہوگی، ہنوز ایک حل طلب سوال ہے۔مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کی آہ و زاریاں آسمان پر پہنچ رہی ہیں۔پٹرول، گیس اور بجلی کی بڑھتی قیمتوں پر عوام بلبلا اْٹھے ہیں۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ’’ نوید‘‘ سنائی ہے کہ دْنیا بھر میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود،پاکستان میں فی الحال یہ قیمتیں کم نہیں ہونگی۔ یعنی مرے کا مارے شاہ مدار۔ حکومت کو یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ عمران خان اپنی ساری سیاسی چالوں میں چاہے ناکام بھی ہوجائیں، حکومت کی عوامی مقبولیت کو زمین پر گرانے کے لئے مہنگائی کافی ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو الیکشن چاہے جلد ہوں یا وقت پر، پی ڈی ایم کو اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔