
دیکھئے صاحب اس ملک میں سینکڑوں رہنما ہیں، درجنوں سیاسی جماعتیں ہیں، لاکھوں کروڑوں ووٹرز ہیں، رہنماو¿ں کی لوٹ سیل ہے اور ایسی سیل جو کہ سال بھر جاری رہتی ہے، یہاں ہر طرح کا رہنما میسر ہوتا ہے، وہ جو آپ کو سبز باغ دکھا سکے، وہ جو آپ کو غربت ختم کرنے کے درجنوں طریقے بتا سکے، وہ جو آپ کو قرض اتارنے اور خود مختار ہونے کے طریقے بتائے، وہ جو آپ کو بیٹھے بیٹھے بہترین خارجہ پالیسی بنا دے، امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کے طریقے بتائے، صحت کے مسائل پر قابو پانے کے درجنوں طریقے بتائے، ہسپتالوں کو بہتر کرنے کے طریقے بتائے، غربت ختم کرنے کے فارمولے بتانے والے بھی ہوں گے، مہنگائی ختم کرنے کے دعویدار بھی ہوں گے، مفت تعلیم کے طریقے بتانے والے بھی ہوں گے لیکن اتنے باصلاحیت رہنماو¿ں کی موجودگی میں بھی میرے ملک میں ایسے رہنما نظر نہیں آتے جو اس وقت ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے کام کر سکیں۔
سینکڑوں رہنماو¿ں میں سے کوئی بدقسمت ہی ہو گا جسے آج تک حکومت میں آنے کا موقع نہ ملا ہو لیکن اس کے باوجود آج تک مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسائل ہی رہنماو¿ں کے پیدا کردہ ہیں کیونکہ جب رہنما کم تھے تو مسائل کم تھے جیسے جیسے رہنماو¿ں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا مسائل بھی بڑھتے چلے گئے اور آج جتنے رہنما ٹیلیویژن اور اخبارات میں نظر آتے ہیں اس سے زیادہ مسائل ہیں، ہر گھر میں ان گنت مسائل ہیں۔ جہاں ایک روٹی پچیس روپے تک جا پہنچے وہاں کوئی یہ کہے کہ زندگی بہت آسان ہے تو کہنے والا کیسے اچھا لگ سکتا ہے۔ آج بھی ملک کو بے پناہ داخلی اور خارجی مسائل کا سامنا ہے لیکن وطن عزیز کے سینکڑوں رہنما مل کر بھی ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ تعلیم کا مسئلہ ہے، نصاب کا مسئلہ ہے، اگر کسی کا نصاب اچھا تھا تو اس کا معیار بلند کرنے کے بجائے اور جو معیار میں کم تھا اس کے معیار کو بہتر بنانے کے بجائے جو بہتر تھا اس کا معیار کم کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ قومی خدمات ہے۔ نہ تعلیم ملتی ہے اگر کہیں ہے تو وہاں سہولیات کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ملک بھر میں صحت کے مسائل ہیں، کہیں ادویات نہیں ملتیں، کہیں ہسپتال میں جگہ نہیں ملتی، کہیں آپریشن کی تاریخ نہیں ملتی، کہیں ڈاکٹر ٹھیک طریقے سے چیک نہیں کرتے، کہیں ڈاکٹرز ہی نہیں ہوتے جہاں تک ہسپتال میں جگہ نہ ملنے کی بات ہے اس حوالے سے گذشتہ روز ہی ایک پاکستان کے بہت بڑے اداکارکا جنرل ہسپتال میں انتقال ہوا انہیں بھی کسی اور مریض کے بیڈ پر لٹایا گیا یعنی ان کے لئے الگ سے بیڈ ہی نہیں مل سکا۔ افضال احمد جیسے نامور اور بڑے اداکار کو اگر بیڈ نہ مل سکے تو عام آدمی کا کیا حال ہو گا۔ افضال احمد نے متعدد ڈراموں اور دو سو سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، وہ منفرد فنکار تھے اور ایک وقت میں ان کا شمار نمایاں فنکاروں میں ہوتا تھا، وہ کوئی غیر معروف شخصیت نہ تھے لیکن انہیں بھی کسی اور مریض کے ساتھ بیڈ پر جگہ ملی یہ حالت تو صحت کی سہولیات کی ہے پھر آپ کس سے توقع کر سکتے ہیں۔ افضال احمد کے مینجر رضوان کے مطابق "افضال احمد کو برین ہیمریج کی وجہ سے جنرل ہسپتال لایا گیا اور ان کے علاج کےلئے ہسپتال انتظامیہ سے ایک پرائیویٹ کمرہ مانگا لیکن ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے پرائیویٹ کمرہ فراہم نہیں کیا گیا۔ ہسپتال میں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض لیٹے ہوئے تھے اور اسی طرح ملک کے نامور اداکار کو بھی ایک مریض کے ساتھ لٹا دیا گیا۔" کیا یہ خبر تکلیف دہ نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ عام آدمی کا کیا حال ہوتا ہو گا اس کا اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں ہے لیکن میرے ملک کے سینکڑوں رہنماو¿ں کے نزدیک شاید یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کبھی کچھ ہوا بھی ہے تو وہ ناکافی ہے۔ ہماری ضروریات کو پورا کرنے کےلئے ناکافی ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی سب رہنما سمجھتے ہیں کہ کام معمول کے مطابق چل رہا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے تو کوئی حرج نہیں انسان آتے جاتے رہتے ہیں، بیمار بھی ہوتے ہیں صحت یاب بھی ہوتے ہیں، خود ہی بیمار ہو جاتے ہیں اور خود ہی صحت یاب بھی ہوتے پس یہ قدرت کا نظام ہے اس کے لیے رہنماو¿ں کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے لاجز، ہوسٹلز، مراعات، گاڑیاں، ٹھیکے، تعلقات سب کام بہتر انداز میں چل رہے ہیں اس لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں یا پھر کبھی کبھار کچھ کر بھی دیا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن پاکستان میں بسنے والے انسانوں کے لیے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح غذائی قلت کا معاملہ ہے۔ لوگوں کے پاس کھانے کی کمی ہے لیکن رہنماو¿ں کی آنکھ سے دیکھیں تو سب اچھا ہے، انہیں لوگوں کے پیٹ بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ ادارہ شماریات کے مطابق ایک ماہ میں پیاز 33.42، آلو 14.57 فیصد مہنگے ہوئے جب کہ انڈے 5.34 ،چینی 3.67 اور چائے 14.79 فیصد مہنگی ہوئی دال مونگ 46.29 فیصد، سرسوں کا تیل 44.7 فیصد اورگندم 43.4 مہنگی ہوئی ہے۔
نومبر میں بجلی چارجز 0.34 فیصد اور مائع ایندھن 3 فیصد مہنگا ہوا ہے اور ہر ماہ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہے لیکن رہنماو¿ں کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ انتخابات یا پھر اسمبلیوں کی تحلیل یا پھر اسمبلیوں کو بچانا ہی رہ گیا ہے۔ انہیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ لوگ ہسپتالوں میں جگہ یا ادویات کی کمی سے مر رہے ہیں یا پھر بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں یا روزگار نہ ہونے کی وجہ سے خود کشیاں کر رہے ہیں کوئی ہے جو سوچے کہ اس ملک کے وسائل سے محروم کروڑوں لوگوں کا کیا کرنا ہے۔