تہذیب اور تربیت وقت کی ضرورت

کہاجاتا ہے کہ تعلیم کبھی بھی تربیت کی جگہ نہیں لے سکتی ۔اگر کسی انسان کے پاس اعلیٰ ترین سند ہے لیکن اس کی تربیت اچھی نہیں ہوئی تو وہ ڈگری کبھی اسکی جگہ نہیں لے سکتی ،میں نے ایسے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیںجن کے پاس دنیاوی کوئی تعلیمی ڈگری نہیں لیکن ان کی تربیت اتنے اچھے طریقے سے ہوئی ہے کہ ان کا کردار معاشرے میں قابل رشک ہے اور دور کیوں جائیںچند دہائیاں پہلے جب ہمارے آباواجداد پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن اعلی روایات اور حسن اخلاق کا پیکر تھے۔ان کی تربیت ان پڑھ والدین نے اعلی اصولوں پر کی قرآن وسنت کے مطابق ،سچ،یقین ،جذبہ ،کردار اور اچھی سوچ کے ساتھ ۔لیکن اگر اس دور کا آج کے دور سے موازانہ کیا جائے تو آج کاغذی ڈگریوں کی بھر مار ہے لیکن اس کے باوجود بھی نئی نسل اپنی روایات سے مذہب سے اورا خلاقیات سے دور ہے ۔آج نت نئے واقعات رونما ہورہے ہیں جنسی تشدد ،خاندانی روایات ،مغرب کی اندھا دھند تقلید آج کے دور کی روح رواں ہیں ۔تیز ترین ترقی اور سوشل میڈیا کی وجہ سے آج نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے اور والدین بھی اسی دوڑ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔آج ہمارا جہاں معاشرتی ڈھانچہ بدل چکاہے وہاں خاندانی نظام ،ادب آداب ،لحاظ رکھ رکھاو سب ختم ہوتا نظر آرہا ہے ،نفسا نفسی کی دوڑ میں انسان انسانیت سے گر رہا ہے۔
آج مذہب سے دوری اور مغرب کی تقلید نے جہاں ہر سطح پر بے سکون اور پریشان کر رکھا ہے وہا ںہماری سوچ کو بھی مادیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اگر آج ہم اپنے ورثے میں ملی روایات ،سوچ اور کردار کو اپنائیں اور اپنر دینی پہلوئوں کو عملی طور پر سمجھیں اور ان پر عمل پہرا ہوں تو یہ جو گہنائونے نت نئے واقعات پیش آرہے ہیں تشدد ،جنسی بے راہ روی ،خاندانی نظام کی بربادی غرض طلاق و خلہ کے بڑھتے ہوئے واقعات کم از کم ان کی روک تھام ہو سکتی ہے۔آج معاشرتی نظام تباہی و بربادی کی طرف گامزن ہے ،ازداوجی نظام میں ظلم وتشدد ،جبر ،الزام تراشی ،جہیز کی لعنت اور خواہشات حد درجہ بڑھ چکی ہیں جس کی وجہ سے طلاق اور خلہ کا ریشو خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے ۔گھروںکی اس دوڑ میں آگے بڑھنے کی وجہ سے ایسے ایسے جذباتی اور پر تشدد واقعات پیش آرہے ہیں َصبر شکر اور قناعت کی دولت سے نئی نسل محروم ہوتی جا رہی ہے ،لوگ ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں اور انہی حالات میں خاندانی اور معاشرتی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے لوگوں کی اسی روش لالچ اور طمع کی وجہ سے صاحب کردار اور اعلٰی سیرت کی مالک لڑکیاں والدین کی دہلیز پر شادی کی عمر گنوا بیھٹی ہیں ۔ جدھر شادی ایسی عورت سے کرو جو حسب نسب اور صاحب کردار ہو ،اور جہاں بیوی کو سجنے سنوارے کا حکم صرف اپنے شوہر کے لیے ہو ،جہاں بچے کی تعلیم و تربیت پیار ومحبت اور عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھ کر و ۔جہاں صبر ،شکر اور قناعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو ،جہاں عورت پر تشدد اور جبر سے نہیں بلکہ پیار سے پیش آنے کا درس ہے انسان تو انسان اسلام میں جانوروں کے ساتھ بھی پیار سے پیش آنے کا درس
ہے ۔ ہمارا اسلام ، اس کے کے مطابق ہی اپنی اولادں کی تربیت کریں انھیں ڈاکٹر ،انجینیر ،استاد یا کوہی بھی شعبہ اپناہیں لیکن پہلے ایک اچھا انسان بناہیں ۔یاد رکھیں تربیت نسلوں کا پتہ بتاتی ہے ۔لحاظہ تعلیم کے ساتھ تربیت بہت ضروری ہے ۔ اس کے لیے ہمارے بڑوں کو الدین کو اپنا کردار نبھانا ہو گا کیوںکہ تربیت یافتہ اور سلجھے ہوئے ذمہ دار بچوں نے ہی آگے اپنی نسلوں کو چلانے کے ساتھ ملک کی باگ ڈور بھی سنبھالنی ہو گی