پاکستان کا فخر

کالم نگاری کی دنیا میں قدم رکھے چار سال ہو گئے۔ کیسے بھول سکتا ہوں کہ کالم نگاری کا آغاز سابق امریکی صدر ٹرمپ کے صدر بننے کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا اور آج اُن کی جگہ جو بائڈن وہائٹ ہائوس میں قدم رنجا ہو چکے ہیں۔بہرحال آج یہ میرا موضوع نہیں ہے بلکہ میں قارئین کے ساتھ ایک خوبصورت اور یادگار سفر کی یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں۔پچھلے دِنوں مجھے پشاور جانے کا موقع ملا۔یہ اپنی بیٹی ، نواسوں اور نواسیوں کی ساتھ ایک روزہ تفریحی دورہ تھا۔سندھ اور پنجاب دونوں میرے گھر ہیں۔ بلوچستان میں کوئٹہ اور زیارت کا بھی چکر لگا چکا تھا لیکن پشاور اور خیبر پختون خواہ جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔اب جو پروگرام بنا تو تو بہت خوشی ہوئی۔میرے داماد نے گوگل کی مدد سے پورے دن کی منصوبہ بندی کی اور کاغذ پر نقشہ بنا کر باقاعدہ جگہوں کے نام ، فاصلہ حتیٰ کہ اندازاََ وہاں پہنچنے وقت بھی لکھ دیا۔اس نقشے میں دوپہر کے کھانے کی جگہ اور وقت بھی شامل تھا۔اِس منصوبہ بندی کے مطابق صبح آٹھ بجے ہم گھر سے نکلے اور ماشاء اللہ رات ساڑھے آٹھ بجے واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ میں قارئین کو بارہ گھنٹے کی روداد نہیں سنانے لگا بلکہ وہ مشاہدات بتانے لگا ہوں جہاں بے اختیار مجھے کراچی، راولپنڈی اور لاہور کا موازنہ پشاور سے کرنا پڑا۔سب سے پہلے تو میں نے یہ غور کیا کہ جب سے ہم پشاور شہر کی حدود میں داخل ہوئے ہیں … ہمیں ایک بھی ’ مانگنے والا ‘ نظر نہیں آیا۔میں نے اس بات کا تذکرہ گاڑی میں کیا تو سب نے بنظررِ غائر جائزہ لینا شروع کیا۔واقعی کسی اشارے پر یا اہم سیّاحتی مراکز یا تاریخی مساجد کے باہر کوئی ایک بھکاری نہیں تھا۔میرے لئے یہ انتہائی اچھنپے کی بات تھی۔بے اختیار میرے ذہن میں کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے اشارے چکرانے لگے۔پٹھان قوم کی غیرت کا سُنا ہی تھا اب یقین بھی ہو گیا۔ہم نے زیادہ وقت سڑکیں ناپنے میں گزارہ تھا تو دوسری بات سب نے یہ محسوس کی کہ خواہ کتنا ہی رش ہو … گاڑی پہ گاڑی چڑھی ہو … کہیں افرا تفری کے آثار نہیں تھے۔کوئی ہارن نہیں بجا رہا تھا۔ماحول میں ایک ٹہرائو اور سُکون محسوس ہو رہا تھا تو ایسے میں کیسے کراچی ، لاہور اور راولپنڈی کا خیال نہ آتا !! یقیناََ یہ حکومتی تدبیر نہیں ہے بلکہ اِس علاقے کے لوگوں کا مزاج ہے۔ تیسری بات بہت مزیدار تھی یعنی مختصر قیام و طعام … ’ نمک منڈی ‘ میں۔ہم نے ایک ہوٹل منتخب کیا تھا۔اندر بہترین نشِست کا انتظام تھا۔ہم چھوٹے بڑے ملا کر چھ افراد تھے۔پشاور آئو اور چپل کباب نہ کھائو ؟ یہ کیسے ممکن ہے مگر ہمارے گیارہ اور بارہ سالہ نواسوں اور سات سالہ نواسی نے مُرغ کڑاھی کی فرمائیش کی۔لہٰذا دونوں چیزیں منگوائیں سلاد ، رائیتہ اور کولڈ ڈرنکس بھی منگوائے۔اور اس کے ساتھ گرما گرم نان وقفے وقفے سے … میزبان کی نظر مہمانوں پر چوکس تھی۔ابتدا میں گرم گرم تین چار نان آئے۔پھر جیسے ہی ’ چنگیر ‘ خالی ہوئی دو نان مزید آ گئے۔پھر جب تک ہم نے روکا نہیں وہ گرم نان لانے کو تیار تھے۔اور اِن سب کا بِل1950/ روپے !! سُبحان اللہ !! عربوں اور پٹھانوں کی مہمان نوازی ضرب المثل ہے۔آج ہم ان کے مہمان ہوئے تو مزہ ہی آ گیا۔ پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں خان کمیونٹی کا کاروبار نہ ہو۔اور سُنا یہی ہے کہ اِن سے بھائو تائو کرنا پڑتا ہے۔سُنا اس لئے کہا کہ میں بہت کم خریداری کرتا ہوں لہٰذا ہم نے اِس دورے میں خریداری کو پروگرام میں شامل نہیں کیا تھا۔اسی لئے سب دیکھ کر وقت پر واپس بھی آ گئے۔پروگرام کے مطابق ہم نے قدیم زمانے کی ایک کاروان سرائے دیکھی جہاں پرانے زمانے کا بنا ہوا مندر بھی تھا۔اندر آنے کے ایک سے زیادہ دروا زے تھے۔ہم جس دروازے سے داخل ہوئے وہ واقعی صدیوں پرانا اور دیو قامت تھا۔گئے زمانے کے کاروان کے لوگوں کے ٹہرنے اور آرام کرنے کے حجرے بھی بہت اچھی حالت میں تھے۔یہ جگہ ’ گورکٹھڑی ‘ اور ’ کاروان سرا ‘ بھی کہلاتی ہے۔ مغل بادشاہ شہاب الدین محمد شاہ جہان کی بیٹی جہان آرا بیگم نے 16 ویں صدی میں اس قدیم تاریخی جگہ کو کاروان سرائے میں تبدیل کروا یا تھا۔یہ تاریخ میں سرائے جہان آباد کہلائی۔ اُس نے ایک جامع مسجد بھی تعمیر کرائی جو آج بھی اچھی حالت میں ہے۔ یہاں سے ہم مشہورِ زمانہ قصّہ خوانی بازار میں سے ہوتے ہوئے مسجد مہابت خان گئے۔یہ مسجد 1630 میں پشاور کے مغل گورنر نواب مہابت خان نے بنوائی تھی۔یہ مسجد پشاور شہر کی علامتی عمارت ہے۔ ’ قلعہ بالا حصار ‘ بھی گزرتے ہوئے دیکھا۔واقعی دیکھنے کی چیز ہے۔ اس قلعہ کو مغل تاج دار ظہییر الدین محمد بابر نے 1526 میں بنوایا تھا۔یہ زمانے کے سرد و گرم اور شکست و ریخت دیکھنے کے بعد انگریزوں کے دور میں اپنی موجودہ شکل کو پہنچا۔آج بھی یہ فعال ہے اور شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی گرینڈ ٹرنک روڈ پر عقابی نگاہیں لئے کھڑا ہے۔ اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی بھی دیکھی۔لاہور اور پنڈی کی میٹروبس کی طرز پر بس ریپیڈ ٹرانزٹ المعروف ’ بی آر ٹی ‘ کی بسیں بھی دیکھیں۔ یہاں سے ہمارا اگلا پڑائو ’ بابِ خیبر ‘ تھا۔ یہ خیبر پاس جانے کا راستہ ہے۔اس کے ساتھ ہی ’ جمرود ‘ کا تاریخی قلعہ ہے۔ یہ علامتی دروازہ 1964 میں صدر ایوب نے بنوایا تھا۔درہء خیبر کی اہمیت مسلمہ ہے۔اس درّے نے ماضی میں یہاں سے سکندرِ اعظم کے جرنیل، محمود غزنوی، شہاب الدین محمد غوری، ظہیر الدین محمد بابر، احمد شاہ ابدالی وغیرہ گزرتے دیکھے ہیں۔ بابِ خیبر سے کچھ پہلے پشاور کی مشہور ’ باڑہ مارکیٹ ‘ کو جانے کا راستہ بھی ہے جس پر بورڈ بھی آویزاں
ہے۔باڑہ مارکیٹ سے پہلے بی آر ٹی کا آخری اسٹاپ ’ کارخانو ‘ ہے۔کارخانو پشتو زبان میں کارخانے یا صنعت کو کہتے ہیں۔یہ بھی بڑی مارکیٹ اور گوداموں کا علاقہ ہے۔اس مقام پر ٹریفک کا خاصہ رش تھا لیکن کوئی بے چینی اور افرا تفری دکھائی نہیں دی۔وہاں سے واپسی پر صدر میں پشاور مال بھی دیکھا۔واقعی یہ کسی بھی طرح جدید ترین شاپنگ مال سے کم نہیں۔ ویسے ہمارا پیارا پاکستان متنوعات سے مالا مال ہے۔موسم ہیں تو چار بلکہ پانچ … جغرافیائی اعتبار سے صحرا، جنگل، پہاڑ، سمندر سب موجود … اجناس ہر قسم کے … پھل بہترین اور انسان بھی ہر قسم اور نسل کے موجود اور خان کمیونٹی یقیناََ پاکستان کا فخر ہے۔