گھریلو ورکر خواتین کے حقوق
مکرمی! پاکستانی خواتین مزدور دوہری اذیت سے دوچار ہیں۔ انہیں نہ صرف ایسے کام کرنا پڑتے ہیں جو انہیں شدید جسمانی تھکاوٹ کا شکار بنا ڈالتے ہیں بلکہ انہیں پے در پے بچوں کی ولادت اور پرورش کے جاں گسل مراحل بھی طے کرنا پڑتے ہیں۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ جو گھرانے غربت و افلاس کا شکار ہیں، وہیں بچوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے۔ ایسی اولاد جسے کھانے کیلئے متوازن خوراک میسر نہ ہو ، موسمی حالات کے مطابق پہننے کیلئے موزوں لباس دستیاب نہ ہو اور خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی مانند اچھی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مسدود ہوں، وہ کیسے ملک و قوم کیلئے اثاثہ ثابت ہوسکتی ہے؟ یہ ہم سب کے سوچنے کا مقام ہے۔ مزدور عورتیں صرف وہی نہیں ہیں جو اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتی ہیں یا کھیتوں میں کام کرتی ہیں بلکہ ان پر وہ عورتیں بھی شامل ہیںجو ہمارے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ انہیں ہوم بیسڈ ورکرز کہا جاتا ہے ۔ ان میں زیادہ تر عورتیں وہ ہوتی ہیں جو معاشی مجبوریوں کے باعث یہ کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ نکھٹو، نشے اور جوئے کی لت میں مبتلا شوہروں کی ستائی خواتین کو بھی لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنے گھر کا نظام چلانا پڑتا ہے۔ سارے دن کی تھکاوٹ کے بعد جب یہ خواتین گھر پہنچتی ہیں تو ہانڈی روٹی اور صفائی جیسے امور بھی سرانجام دینا پڑتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان ہوم بیسڈ ورکرز کو بھی مزدور تسلیم کرے تاکہ انہیں بھی مزدوروں کی طرح حقوق مل سکیں۔ ایسا ہوجائے تو انہیں اپنی صحت اور بچوں کی تعلیم کے ضمن میں سوشل سکیورٹی کے تحت وہ تمام سہولتیں حاصل ہوسکیں گی جو مروجہ لیبر قوانین کے تحت مزدوروں کو حاصل ہیں۔(آویزبٹ ، لاہور)