حقیقت پر مبنی فرضی کہانی

ایک گورنمنٹ ہائی سکول میں جاوید‘ اکرم‘ اختر‘ وحید اور منور پانچوں گہرے دوست محلے دار اور ہم جماعت تھے۔ میٹرک کے بعد نمبروں کی بنیاد پر سب ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ جاوید تعلیم میں نسبتاً کمزور مگر بہت سوشل تھا۔ میٹرک کر کے اسی محلے کے کونسلر کے ساتھ نتھی ہوگیا ۔ محمد اکرم اور منور حسین بہت لائق تھے۔ میٹرک میں اچھے نمبروں کی بنیاد پر بہترین کالج میں داخل ہو گئے۔ اختر نے اپنے والد کی کریانہ کی دکان سنبھال کر ساتھ ساتھ پڑھائی جاری رکھی مگر غربت کی وجہ سے وحید تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور جرابیں بنانے والی ایک فیکٹری میں پیکر بن گیا۔ سولہ سترہ سال کی عمر میں ایک دوسرے سے بچھڑنے والے یہ پانچوں چالیس سال بعد ایک دوسرے سے یوں ملتے ہیں کہ انہیں اکٹھا کرنے اور اپنے عالیشان فارم ہاؤس میں بھرپور دن گزارنے کا موقع وہی جاوید فراہم کرتا ہے ، جواسی علاقے سے رکن اسمبلی منتخب ہو چکا ہے۔ وہ کونسلر کے بااعتماد ساتھی سے کونسلر اور پھر رکن اسمبلی بن چکا تھا۔ اس نے جھگڑے والی جائیدادیں بھی خریدنا شروع کر دیں اور پھر ایک کمرشل پلازہ جس کی مالک ایک خاتون تھی مگر قابض کوئی اور تھا وہی 30 کروڑ کا پلازہ اس نے 5 کروڑ میں خرید لیا اور پھر اس قابض شخص سے خالی کروایا۔ ڈیل ہوئی تو اسی کو 27 کروڑ میں بیچ دیا یہ تو ایک آدھ کارروائی ہے وہ اس طرح کے درجنوں سودے ڈال چکا ہے اس کا لنگر ہر وقت چلتا ہے۔ اسے علم ہے کہ حلقے میں کون کتنا ضرورت مند ہے۔ کتنے میں اپنا ووٹ بیچے گا اورکس برادری سے کیسے ڈیل کرنی ہے۔ یہ ڈیل ماسٹر تیسری مرتبہ رکن اسمبلی بنا اور ایک مرتبہ وزیر بھی رہ چکا ہے سارے بچے بھی اس نے بیاہ دئیے ہیں اور سب پراپرٹی کا کامیاب کاروبار کر رہے ہیں ۔جاوید چالیس سال سے اپنے تمام فیصلے اپنی مرضی اور حالات کے مطابق کرتا آرہا ہے ۔
محمد اکرم اور منور حسین جو بہت لائق تھے ایک سول سروس میں چلا گیا اور دوسرے نے فوج کو بطور کیریٔر اپنا لیا‘ دونوں ہی نے بہت منظم اور صاف ستھری زندگی کا آغاز کیا۔ ملک بھر میں ٹرانسفر پوسٹنگ نے انکے اپنے شہر اپنے لوگوں حتیٰ کہ رشتے داروں سے بھی رابطے ختم کر دیئے۔ ہر وقت پروٹوکول اور سٹیٹس کے گرداب اور اپنی اولاد کو اپنے سے بھی بہتر دیکھنے کی خواہش نے انہیں مزید محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ تین چار سال بعد ریٹائرمنٹ کی تلوار تو ابھی سے ان کے سر پر لٹکنے لگی ہے ۔بیگمات کا علیٰحدہ سے دباؤ ہے کہ جس کروفر میں زندگی کی تین سے زائد دہائیاں گزار د ی ہیں وہ کسی بھی صورت جانے نہ پائے۔
ان دونوں نے صاف ستھری ملازمت کی اور اپنے کیریٔر میں انہوں نے کتنی ہی اچھی تجویز اور کتنا ہی اعلیٰ پلان اپنے باس کو پیش کیا۔ اس میں باس کی ہدایات کے مطابق ہی اس میں تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ لہٰذا اتنے طویل عرصے میں وہ دونوں اپنی بے پناہ ذہانت کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال ہی نہ کر سکے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سب کچھ چھن جانے کا خوف بھی اکرم اور منور کو متزلزل کر رہا ہے۔حالانکہ زندگی میں سالہا سال یس باس کہنے والے اب اچانک دو تین سال کیلئے باس بھی بن چکے ہیں۔ زندگی بھر اُصول پسندی اور وقار کو اولیت دینے والوں میں سے ایک کو اب پیشکشیں شروع ہو گئی ہیں کہ فلاں پالیسی بنا دیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے فلاں پراجیکٹ میں فلاں شعبے میں شمولیت اختیار کر لیں مگر تربیت اور خاندانی پس منظر انہیں کوئی فیصلہ کرنے ہی نہیں دے رہا۔ اوپر سے دونوں کے بچے بھی ابھی تک سیٹ نہیں ہو سکے شادی تو دور کی بات ۔
اختر جس نے سولہ سال کی عمر میں اپنے کیریٔر کا آغاز والد کی پرچون کی دکان سے کیا اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی۔ اس نے ایک بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور بنا لیا ہے اور اپنے اڈے پر بیٹھا سارے کے سارے فیصلے خود ہی کرتا ہے۔ کاروبار کو اس نے کافی پھیلا لیا ہے اور اپنے تمام بچوںاور دامادوں کو بھی الگ الگ کاروبار کرا دیا ہے۔ حتی کہ بیٹیاں رشتے داروں میں بیاہ کر ان کے شوہروں کو بھی کسی نہ کسی پراڈکٹ کی ایجنسی دلوا رکھی ہے اور محض 56 سال کی عمر میں تمام تر ذمہ داریوں سے آزاد ہو چکا ہے اپنے تمام تر فیصلے خود کرنے کی عادت نے اس میں بلا کی خود اعتمادی پیدا کر رکھی ہے۔وحید علی نے جرابیں پیک کرنے والی ایک فیکٹری میں ملازمت شروع کی تو اسکے دوسرے دونوں بھائی دبئی چلے گئے۔ انہوں نے وہاں سے کچھ پیسے بھجوائے تو اس نے اپنے ہی گھر کی ڈیوڑھی میں جرابیں بنانے کی پرانی مشین لگا لی اور دن رات محنت کی۔ آج اس نے چالیس سال کے عرصے میں اپنی علیحدہ کوٹھی بنا لی ہے اور اس پرانے گھر کو کارخانہ میں تبدیل کر کے ساتھ والے گھر بھی خرید لئے ہیں۔ ایکسپورٹ کوالٹی جرابیں بناتا ہے اور دنیا کے متعدد ممالک میں اس کا مال جاتا ہے۔ اس کم تعلیم یافتہ وحید علی نے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے ملازم رکھے ہوئے ہیں جو اس کی تمام تر ایکسپورٹ کی نگرانی کرتے ہیں۔ اپنی زندگی میں ہی اس نے بچوں میں کاروبار تقسیم کر دیا ہے۔ ایک بیٹا سپورٹس کی جرابیں بناتا ہے اور وہ اکثر بیرون ملک دوروں پر رہتا ہے۔ سولہ سال کی عمر میں کیریٔر کی تلاش میں ایک دوسرے سے دور ہونے والے جاوید کے پرتعیش فارم ہاؤس میں جمع ہیں اور جاوید اب ملک جاوید ہے۔ 40 سال بعد ہونے والی اس ملاقات میں دونوں اعلیٰ افسران کے پاس سنانے کیلئے صرف ماضی کے قصے ہی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد کے کاغذی منصوبہ جات۔ ایک کو مقابلے کا امتحان دینے اور خود کو سیٹ کرنے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا اور دوسرے کو دور دراز کی پوسٹنگ نے سوسائٹی اور اپنوں سے اتنا دور کئے رکھا کہ زندگی اور سوچ کے انداز ہی بدل دئیے۔دن بھر کی گپ شپ کرنے ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہونے اور گزرے چالیس سال کا تجزیہ کرنے کے بعد وہ پانچوں اس نتیجے پر پہنچے۔
علم ہر صورت حاصل کرو مگر اپنی ذہانت‘ محنت‘ لگن‘ شعور اور تمام تر تربیت کا استعمال صرف اور صرف اپنے لئے کرو۔ زندگی میں ہنر سیکھو کہ جن کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر نہیں وہ اپنی سمت درست نہیں رکھ سکتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ’؎کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘