ای وی ایم کی لگائی رونقیں

حکومت الیکشن کمشن کے فنڈز روکنے کی مجاز ہے یا نہیں مگر فواد چودھری صاحب نے الیکشن کمشن کو یہ دھمکی لگا کر اپنی پارٹی کے اندر بھی رونق تو لگا دی ہے۔ فواد صاحب یہ بیان نہ دیتے تو یہ بات کیسے عیاں ہوتی کہ وزیراعظم صاحب تو اپنی زیر صدارت منعقد ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی مسلسل بیٹھے رہنا ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کی پارلیمنٹ میں تو قانون سازی جیسے اہم مواقع پر بھی عدم موجودگی کا اپوزیشن بنچوں کی جانب سے چیخ و پکار کے انداز میں نوٹس لے لیا جاتا ہے مگر وفاقی کابینہ کے اجلاس سے ان کے اٹھ کر چلے جانے کا نوٹس کون لے۔ یہ تو بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والی بات ہے۔
وزیر موصوف شبلی فراز نے تو یقینا بھولپن میں یہ راز افشا کیا ہو گا کہ کابینہ کے اجلاس میں انتخابات ای وی ایم پر منتقل نہ ہونے کی صورت میں الیکشن کمشن کے فنڈز روکنے کاکوئی فیصلہ نہیں ہوا البتہ اجلاس کے دوران وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں بعض وزراء کی جانب سے اس معاملہ پر بات کی گئی تھی۔ شبلی فراز صاحب کے اس انکشاف پر ایک تیر سے بیک وقت دو نشانے لگ گئے۔ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم کی عدم موجودگی کی تصدیق کی تو اسی ایک جست میں انہوں نے اپنے کولیگ فواد چودھری صاحب کے پریس بریفنگ کے دوران کئے گئے اس اعلان کو بھی جھٹلا دیا کہ وفاقی کابینہ نے الیکشن کمشن کی جانب سے اگلے ضمنی انتخابات سمیت انتخابات کا عمل الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر منتقل نہ کرنے کی صورت میںاس کے فنڈز روک لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے اس اعلان کے لئے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کو بھی یہ کہہ کر گواہ بنایا کہ ان کی رائے میں بھی الیکشن کمشن کو انتخابات ای وی ایم کے ساتھ وابستہ کرنے کی صورت میں ہی فنڈز جاری ہو سکتے ہیں کیونکہ اب قانون کا تقاضہ ای وی ایم کے تحت انتخابات کرانے کا ہے۔
اس معاملہ میں آئینی اور قانونی حلقے تو الیکشن کمشن کے تقرر و اختیارات کے حوالے سے آئین پاکستان کا پورا ایک چیپٹر ہاتھ میں پکڑ بیٹھے ہیں جو آئین کی دفعہ 213 سے 221 تک پھیلا ہوا ہے اور ہر دفعہ آئین کے تحت الیکشن کمشن کی خودمختاری پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہی ہے۔ اگر دفعہ 218 اور 219 کے تحت الیکشن کمشن کو ملک میں انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انعقاد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جس کے لئے اس نے آئین کی دفعہ 219 کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابی فہرستیں تیار اور ہر سال ان پر نظرثانی کرنی ہے اور انتخابی عمل کو دھاندلیوں کے کلچر سے نکالنے کے بھی ضروری اقدامات اٹھانے ہیں تو آئین کی ان دفعات کے تقاضے کے تحت یہ سراسر الیکشن کمشن کی صوابدید ہے کہ وہ انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے اور دھاندلیوں کو روکنے کے لئے کیا طریق کار اختیار کرے، جبکہ حکومت بالخصوص وزیر اعظم اس امر کے داعی ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہی انتخابی دھاندلیوں کا سدباب ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے بعض ممالک کی مثال دی جاتی ہے جہاں انتخابات ای وی ایم پر منتقل ہو چکے ہیں۔ حکومت کو تو انتخابات ای وی ایم پر منتقل کرانے کی اتنی جلدی ہے کہ وہ لاہور کے حلقہ 133 سمیت آنے والا ہر ضمنی انتخاب بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے تحت ہی کرانا چاہتی ہے جبکہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی انتخابات بھی ای وی ایم کے تحت کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس پر الیکشن کمشن کو تو تکنیکی بنیادوں پر تحفظات اور اعتراضات ہیں جس کا اظہار الیکشن کمشن کی جانب سے حکومت کو بھجوائے مراسلہ میں دوٹوک انداز میں کیا گیا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوںکو یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ حکومت نے ای وی ایم کے ذریعے انتخابات چوری کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اس مشین کا مرکزی کنٹرول کس کے پاس ہو گا، ابھی تک یہ معاملہ کلیئر نہیں ہے اور نہ ہی انتخابی عملہ اور ووٹرزکو ای وی ایم کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کے عمل سے مکمل آگاہی ہے، اپوزیشن کو دھڑکا 2018 ء کے انتخابات میں آر ٹی ایس کے ووٹوں کی گنتی کے دوران ’’بیٹھ‘‘ جانے کے تناظر میں لگا ہے کہ ای وی ایم کاسٹ ہونے والے ووٹ نہ جانے کس کے کھاتے میں شمار کر دے۔ اس کے لئے اپوزیشن کی جانب سے بھی ان ممالک کی مثال دی جا رہی ہے جہاں انتخابات ای وی ایم پر منتقل کرنے کے متضاد نتائج آئے تو انہوں نے ای وی ایم کو ترک کر دیا۔ چنانچہ اپوزیشن کا یہی خیال ہے کہ حکومت بالاصرار انتخابات کو ای وی ایم پر منتقل کرنا چاہتی ہے تو وہ انتخابی نتائج اپنے حق میں کرنے کے کچھ نہ کچھ انتظامات کرکے بیٹھی ہے۔
اب فواد چودھری صاحب نے الیکشن کمشن کو ضمنی انتخابات بھی ای وی ایم پر لانے کا ہدایت نامہ جاری کرکے اپوزیشن اور الیکشن کمشن ، دونوں کو الرٹ کیا ہے۔ اگر الیکشن کمشن کو یہ خدشہ ہے کہ الیکٹرانک مشینیں انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے میں کارگر نہیں ہو پائیں گی جس کی کئی تکنیکی وجوہات اس کے پیش نظر ہیں تو وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لئے اپنی آئینی ذمہ داری میں کسی کو نقب کیوں لگانے دے گا جبکہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں انتظامیہ کے ایماء پر انتخابی عملہ کی جانب سے نتائج تبدیل کرنے کے اقدامات پہلے ہی الیکشن کمشن کے لئے پریشانی کا باعث بنے ہیں اور اس کی جانب سے متعلقہ حکام اور انتخابی عملہ کے خلاف کارروائی کے اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں۔
اگر الیکشن کمشن کو یہ اطمینان ہو کہ ای وی ایم کے ذریعہ انتخابات کی شفافیت یقینی بنائی جا سکتی ہے تو وہ اس طریق کار کو اپنی صوابدید کے تحت اپنا سکتا ہے مگر اس کے آئینی دائرۂ کار و اختیارات کی موجودگی میں کسی قانون یا آرڈی ننس کے ذریعے کوئی انتخابی طریق کار اس پر ٹھونسا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ حکومت کا ای وی ایم پر اصرار برقرار رہے گا تو اس سے دو ریاستی آئینی ادارے لامحالہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئیں گے اور معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں جائے گا جس کے لئے اپوزیشن جماعتیں تیاری کر کے بھی بیٹھی ہوئی ہیں تو حکومت کے لئے صورت حال سینیٹ انتخابات والی ہی بنے گی جس کے لئے حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈی ننس جاری کرکے شو آف ہینڈز کا طریق کار لاگو کیا گیا مگر اسے اپنی جانب سے سپریم کورٹ بھجوائے گئے ریفرنس کے بے نیل و مرام واپس لوٹنے کی صورت میں سبکی اٹھانا پڑی۔ پھر حضور! یہ ضرور سوچ رکھئے کہ آئین کی دفعات 218 ، اور 219 کی موجودگی میں پارلیمنٹ کے منظورکردہ کسی قانون کے تحت انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین زبردستی کیسے استعمال کی جا سکتی ہے ، آئین کی دفعہ 220 نے تو الیکشن کمشن کو یہ اختیار بھی دے رکھا ہے کہ وہ کسی بھی وفاقی اور صوبائی اتھارٹی (حکومتی انتظامی اداروں) کو انتخابی عمل میںمعاونت کا پابند کر سکتا ہے۔ کیا الیکشن کمشن کے اس آئینی اختیار پر کابینہ یا کسی دوسری انتظامی اتھارٹی کی جانب سے کمشن کے فنڈز روکنے جیسی قدغن لگائی جا سکتی ہے۔ آپ کو اپنی اتھارٹی کا زعم ہے تو عملی طور پر ایسا کوئی قدم اٹھا کر دیکھ لیں کہ اس پر کیا لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔ اگر تو آپ نے سسٹم میں ہلچل پیدا کرنے کی ہی ٹھان رکھی ہے تو تاریخ کے ابواب اس کے بھی گواہ بن جائیں گے کہ جمہوریت کے گھونسلے کی درخت والی شاخ کاٹنے کا کارنامہ کس کے ہاتھوں سرانجام پایا۔ ورنہ آئین قائم و برقرار ہے اور اس کے ماتحت ہی امور حکومت و مملکت سرانجام پا رہے ہیں تو پھر وہی ہو گا جو آئین اور قانون کی منشاء ہے۔ آئین کو توڑنے مروڑنے کا تصور تو جرنیلی آمریتوں کے ساتھ ہی وابستہ ہوتا ہے۔