پاکستان جی 77 کا سربراہ منتخب: قرضوں کی تنظیم نو کا مطالبہ
دنیا کے تقریباً تمام ممالک اس وقت کورونا وائرس کے باعث پھیلنے والی وبا کے اثرات سے نبرد آزما ہونے میں مصروف ہیں۔ کووِڈ کی وجہ سے ترقی پذیر ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ معیشتیں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں وبا کے باعث جانی نقصان تو زیادہ نہیں ہوا تاہم معیشت کو ایک زبردست جھٹکا لگا ہے اور اس کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان سے نکلنے اور معیشت کو بحال ہونے میں ایک لمبا وقت درکار ہوگا۔ ایک طرف یہ کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کر کے معیشتوں کو بحالی کی راہ پر لایا جاسکے اور دوسری جانب کورونا وائرس کی نئی شکل ’اومیکرون‘ نے دنیا میں پریشانی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں اومیکرون کی وجہ سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو مزید کتنا نقصان سہنا پڑے گا، البتہ یہ طے ہے کہ عالمی برادری کو اس وبا کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مل کر اقدامات کرنا ہوں گے اور اس سلسلے میں ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ریاستوں کی مدد کرنا ہوگی بصورتِ دیگر عالمی معیشت کو کساد بازاری کی ایک نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے اثرات دور رس ہوں گے۔
پاکستان نے کووِڈ کی پہلی لہر سے لے کر اب تک عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری پر اسی حوالے سے زور دیا ہے کہ طاقتور ممالک کمزور ریاستوں کا ساتھ دے کر اس وبا کے اثرات کو قابو کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ اب پاکستان کو سال 2021ء کے لیے گروپ آف سیونٹی سیون (جی 77) نامی بین الاقوامی تنظیم کا سربراہ منتخب کرلیا گیا ہے تو امید ہے کہ پاکستان اس حوالے سے زیادہ مؤثر طریقے سے عالمی برادری تک اپنا پیغام پہنچا سکے گا۔ پاکستان15 جون 1964ء کو قائم ہونے والے اس گروپ کا بانی رکن ہے اور اب سے پہلے تین بارگروپ کی سربراہی کا اعزاز حاصل کرچکا ہے۔ منگل کو ایک مرتبہ پھر گروپ کا سربراہ مقرر ہونے کے بعد پاکستان نے قرضوں کی تنظیم نو اور عالمی معیشت کی بحالی کے لیے ترقی پذیر ممالک سے مزید وسائل مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر میں گروپ کے پینتالیسویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترقی پذیر ممالک پر زور دیا کہ وہ پائیدار ترقی کی راہ پر واپس آنے کے لیے مشترکہ ترقیاتی ایجنڈے کو فروغ دیں۔ انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے سالانہ ماحولیاتی فنانس کی مد میں 100 ارب ڈالر کی فراہمی پر بھی زور دیا جس سے ترقی پذیر ممالک میں اربوں روپے کے غیر قانونی مالیاتی بہاؤ کا خاتمہ اور چوری شدہ اثاثوں کی واپسی ممکن ہو سکے گی۔ شاہ محمود قریشی نے منصفانہ بین الاقوامی ٹیکس کے نظام کے ساتھ ایک شفاف اور کھلے تجارتی نظام کی تشکیل کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا، پاکستان امید رکھتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مشترکہ ترقیاتی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے گروپ کے ارکان کے ساتھ تعاون کیا جائے گا، قرضوں کی تنظیم نو کی جائے گی اور ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے 650 بلین کے نئے سپیشل ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آرز) دینے کے علاوہ وسیع پیمانے پر رعایتی قرضے دئیے جائیں گے۔ انہوں نے منصفانہ بین الاقوامی ٹیکس نظام کے ساتھ ساتھ ایک منصفانہ اور کھلے تجارتی نظام کی تشکیل کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ شاہ محمود قریشی نے بین الاقوامی برادری کو یاد دلایا کہ کووڈ 19 کی وبا اور اس کے نتائج، پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) کے حصول اور موسمیاتی تبدیلیوں سمیت دنیا کو اس وقت تین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امیر ممالک نے اپنی معیشتوں کو متحرک کرنے اور کووڈ 19 کے بحران سے نکلنے کے لیے 26 ٹریلین ڈالرز سے زیادہ کا پیکیج دیا لیکن ترقی پذیر ممالک معاشی بحالی کے لیے درکار 3 سے 4 ٹریلین ڈالرز کا ایک حصہ بھی اکٹھا کرنے میں ناکام رہے۔
گروپ کے اس ورچوئل اجلاس سے اپنے خطاب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ محض کووِڈ 19 کی ویکسین تک ہی عالمی برادری کی رسائی ممکن نہ بنائیں بلکہ ترقی پذیر ممالک کو اپنی معیشتوں کی تعمیر نو میں بھی مدد دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ترقی پذیر ممالک کو وہ وسائل فراہم کرنے چاہئیں جن کی انہیں ضرورت ہے تاکہ وہ پائیدار بحالی میں سرمایہ کاری کر سکیں، اپنی معیشتوں کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکیں اور اپنے متحرک معاشروں کو بحال کر سکیں۔ انتونیو گوتریس نے یہ بھی کہا کہ ویکسین کی فراہمی کے معاملے میں عدم مساوات اور یکجہتی کا فقدان ممالک اور خطوں کے درمیان، امیر اور غریب کے درمیان، اور دنیا کے شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان عدم مساوات اور ناانصافی کی دیگر شکلوں کو جنم دے رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کووِڈ کے اثرات سے بحالی کی موجودہ انتہائی ناہموار رفتار کے بالعموم سب کے لیے اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے لیے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
جی 77 کے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جو کچھ کہا اس سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی معیشت اس وبا کے اثرات سے اس وقت تک بحال نہیں ہوسکتی جب تک کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ریاستوں کے ساتھ کھل کر تعاون نہ کریں اور ترقی پذیر ممالک ایسی پالیسیاں اختیار نہ کریں جن کی مدد سے ان کے ہاں معاشی سرگرمیاں وبا سے پہلے کی رفتار پر واپس جاسکیں۔