بابری مسجد کے جانبدارانہ فیصلے سے بھارت بے نقاب

بابری مسجد جو مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب ہے، بھارتی ریاست اترپردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی۔ اسے مغل سالار میر باقی نے تعمیر کروایا تھا۔9 نومبر 2019 کو ہندوستانی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کے چیف جسٹس رانجن گنگوئی کی سربراہی میں 5رکنی بنچ نے بابری مسجد کی زمین سے متعلق محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا یا۔ 5رکنی بنچ میں مسلمان جج ایس عبدالنذیر بھی شامل تھے۔ فیصلے کے ابتدائی حصے میں عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کے مقام پر نرموہی اکھاڑے اور شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ مسترد کردیا۔معزز عدالت کے جج نے اسے ہندو توا کے حق میں دیدیا۔جس کی بنیاد پر 5 اگست 2020 ملک کے وزیراعظم کے ہاتھوں رام مندر کے لیے سنگ بنیاد رکھا گیا ہیمسلمانوں کیلئے یہ فیصلہ کوئی انوکھا یا چونکا دینے والا نہیں تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ چاہے بھارت کی کوئی ماتحت عدالت ہو یا سپریم کورٹ،خاص طورپر مسلمانوں کے معاملے میں فیصلہ ہمیشہ ہندو کے حق میں ہی آئے گا۔ہاں یہ ضرور ہوا کہبابری مسجد کے عدالتی فیصلے کے بعد دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت بے نقاب ہو گئی۔ چیف جسٹس رانجن گنگوئی نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ متفقہ ہے۔ہندو ایودھیا کو رام کی جنم بھومی جبکہ مسلمان اس جگہ کو بابری مسجد کہتے ہیں۔ تاریخی شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر خالی زمین پر نہیں کی گئی تھی۔ مسلمان مسجد کے اندرونی مقام پر عبادت کرتے تھے جبکہ ہندو مسجد کے باہر کے مقام پر اپنی عبادت کرتے تھے۔1949ء میں بابری مسجد گرانا بت رکھنا غیر قانونی ہے۔مسلمانوں کے بابری مسجد اندرونی حصوں میں نماز پڑھنے کے شواہد ملے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہندوؤں کی جانب سے یہ دعویٰ کہ دیوتا رام کا جنم بابری مسجد کے مقام پر ہوا تھا غیر متنازع ہے جبکہ مذکورہ زمین کی تقسیم قانونی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ عدالت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مذہب پر بات کرے۔ عبادت گاہوں کے مقام سے متعلق ایکٹ تمام مذہبی کمیونٹیز کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔گزشتہ برس بابری مسجد کے فیصلے کے بعدرواں برس 30ستمبر کو لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے بابری مسجد انہدام کیس میں سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی سمیت تمام 32 ملزمان کو بری کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ نے ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔ بابری مسجد کا انہدام منصوبہ بند نہیں تھا۔ یہ سب کچھ اچانک ہوا اور سماج دشمن عناصر نے مسجد کو منہدم کردیا جبکہ ملزم رہنماؤں نے ان لوگوں کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔
گو کہ عدالت سے باہر آتے ہی اس کیس میں بری ہونے والے ایک ملزم جئے بھگوان گوئل نے عدالت کے باہرمیڈیا سے کہا’’ہم نے مسجد توڑی تھی، عدالت اگر ہمیں مسجد توڑنے پر سزا بھی دیتی تو ہم اسے قبول کرتے اور ہمیں خوشی ہوتی۔ عدالت نے ہمیں سزا نہیں دی، یہ ہندو دھرم کی فتح ہے۔" اس موقع پر کچھ لوگوں نے جئے شری رام کے نعرے بھی لگائے۔92 سالہ لال کرشن اڈوانی نے ایک بیان جاری کر کے کہا ’’میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کے دیے گئے اس فیصلے کے مطابق آیا جس نے اجودھیا میں ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا راستہ یقینی بنایا اور جس کا سنگ بنیاد 5 اگست کو رکھا گیا تھا۔ اس فیصلے نے ان کی اور بی جے پی کی رام جنم بھومی تحریک کے حوالے سے ان کے اعتماد کو مزید مستحکم کیا ہے۔"اس کیس میں بری ہونے والے ایک اور ملزم سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی نے اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ سب منصوبہ بند نہیں تھا۔ وزیر دفاع اور بی جے پی کے سابق صدر راج ناتھ سنگھ نے آج کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیا۔نہ صرف بھارت بلکہ کم از کم عالم اسلام میں یہ سوال گردش میں ہے کہ کیا بابری مسجد کی ملکیت اور اب بابری مسجد کے انہدام کیس میں عدالت کا فیصلہ مسلمانوں کی شکست ہے؟ حقیقت میں یہ مسلمانوں کی نہیں بلکہ ملک کے عدالتی نظام کی شکست ہے۔ اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں یہ مانتا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت مجرمانہ کارروائی اور غیرآئینی تھی اس کے باوجود اسی زمین کو ان لوگوں کو دے دیتا ہے جنہوں نے مسجد شہید کی تھی تو یہ کس بات کا مظہر ہے؟ یہ مسلمانوں کی نہیں بلکہ انصاف کی شکست ہے۔دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے ثبوت موجود ہیں کہ کون لوگ مسجد کو شہید کرنے والوں کو اکسا رہے تھے، ان کا حوصلہ بڑھارہے تھے، ’ایک دھکا اور دو مسجد کو توڑ دو‘ جسے نعرے لگارہے تھے۔بابری مسجد کے فیصلے کے بعد ہی مودی سرکار کی اتنی ہمت ہوئی کہ 5 اگست کو جب کشمیر میں کرفیو اور محاصرے کا ایک سال پورا ہوا تو بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے ایودھیا میں منہدم تاریخی بابری مسجد کی جگہ ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد رکھ دیا۔مودی کے ذریعہ سنگ بنیاد رکھے جانے پر مختلف حلقوں اور بالخصوص سول سوسائٹی نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عہدے پر فائز ایک شخص کوکسی مخصوص مذہب کی تقریب میں اس طرح حصہ لینا درست نہیں ہے اور وزیر اعظم مودی نے عہدے کے حلف لیتے وقت ملکی آئین اور قانون کا احترام کرنے کا جو عہد کیا تھا، ان کا یہ قدم،اس کے برخلاف ہے۔ بھارت میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے تنازعہ نے ملک کی سیاست یکسر تبدیل کر کے رکھ دی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کا سیکولر کردار ختم ہوتا جارہا ہے اور بھارت ایک ہندو راشٹر کی جانب گامزن ہے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ جسے اس نے پورا کردیا ہے۔