قناعت

35سال سرکاری ملازمت کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے تو کئی منصوبے اور پروگرام ذہن میں ترتیب دئے۔ جو کوئی نیا کام یا روزگار کی مصروفیت کے حوالے سے نہیں تھے بلکہ اپنی بقیہ زندگی اپنی مرضی کے مطابق جینے کے لئے تھے۔ اپنے گائوں اور علاقے کے پرانے دوستوں ، کالج اور یونیورسٹی کے ساتھیوں کے ساتھ رابطوں کے پروگرام بنائے گئے۔ یہ سب ایک خوش کن اور خوبصورت منظر کی شکل میں نظر آتا تھا۔ کیونکہ ساری زندگی مختلف پابندیوں کی جکڑ میں گزر گئی تھی۔ ایسا محکمہ جس میں ہر وقت مختلف مزاج اور طبقات کے لوگوں کو خوش رکھنے کی اداکاری کرنی پڑے اس میں لوگ صرف منہ سے ہنستے ہیں ان کے اعصاب ہمیشہ جکڑے رہتے ہیں۔ ان کی فطرت بہت کم ہنستی ہے۔ ہمیشہ جھوٹی ہنسی ہنستے ہیں وہ بھی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق کہ قہقہہ اور ہنسی صحت اور ڈپریشن کے لئے مفید ہے۔ ریٹائرمنٹ کے چند ہی روز میں دوستوں اور واقف کاروں نے شدو مدسے پوچھنا شروع کر دیا کہ اب کیا کام کرتے ہو۔ اگر کہہ دیں کہ فارغ ہیں اور گھر پر بچوں میں رہتے ہیںتو جواب ملتا ہے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار یا کسی پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر لو۔ اگر کہہ دیں کہ 60سال عمر ہو گئی ہے کافی عرصہ کام کر لیا ہے اب ریسٹ کرنے میں کیا قباحت ہے۔ تو جواب ملتا ہے کہ اچھی بھلی صحت ہے۔جب تک ہمت ہے کچھ کرو۔ کیونکہ ایک تو مصروفیت رہتی ہے ، چار پیسے بھی آئیں گے۔ ویسے بھی لوگ فارغ اور بیکار آدمی کو اچھا نہیں سمجھتے۔ کوئی کام کر لو گے تو آرام سے زندگی گزارو گے۔ تو اکثر دوستوں کے اس استفسار پر انہی یہ قصہ سناتا ہوں۔ ایک ارب پتی ایک مچھیرے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا۔جو مچھلیاں پکڑنے کی بجائے اپنی کشتی کے کنارے سگریٹ سلگائے بیٹھا تھا۔ اس ارب پتی نے مچھیرے سے پوچھا کہ تم مچھلیاں کیوں نہیں پکڑ رہے۔ جواب ملا کہ اس نے آج کے دن کے لئے کافی مچھلیاں پکڑ لی ہیں۔ دوبارہ سوال کیا گیا کہ مزید کیوں نہیں پکڑ رہے؟۔وہ بولا مزید پکڑ کر کیا کروں گا۔ ارب پتی بولا"مزید مچھلیاں پکڑ کر تم زیادہ پیسے کما سکتے ہو ، پھر تمہارے پاس موٹر والی کشتی ہوگی۔ جس سے تم گہرے پانیوں میں جا کر مچھلیاں پکڑ سکو گے۔ تمہارے پاس نائیلون کے جال خریدنے کے لئے کافی پیسے ہوں گے۔ تم زیادہ مچھلیاں پکڑ کر اور زیادہ پیسے کما سکو گے۔ جلد ہی تم ان پیسوں کی بدولت دو کشتیوں کے مالک بن جائو گے۔ پھر ممکن ہے تمہارے ذاتی جہاز وں کا بیڑہ ہو۔ پھر تم میری طرح امیر ہو جائو گے"۔ مچھیرے نے پوچھااس کے بعد میں کیا کروں گا؟۔ ارب پتی بولا"پھر تم آرام سے بیٹھ کر زندگی کا لطف اٹھانا"مچھیرا بولا "تمہیں کیا لگتا ہے میں اس وقت کیا کر رہا ہوں" ۔ ممکن ہے باقی معاشروں کا بھی یہی حال ہو ۔ مگر ہمارے ہاں تو صورتحال یہ ہے کہ زیادہ کمانے کی خواہش اب بد حواسی اور دیونگی کو چھونے لگی ہے۔ یا تو ہم ماضی کو کوستے ہیں یا مستقبل کے سہانے خوابوں میں گم رہتے ہیں۔ ماضی اور مستقبل کے چکر میں اپنا حال خراب کر لیتے ہیں۔ کسی نے غالباً اسی صورتحال میں کہا ہے کہ
وہ چاٹ لیتا ہے دیمک کی طرح مستقبل
تمہیں پتہ نہیں ماضی جو حال کرتا ہے۔
زندگی میں سیٹ ہونے کے منصوبے ، کاروبار یا باہر جانے کی خواہش ،گھر بنانے کی تمنا ، شادی اور پھر بچوں کو تعلیم دلوانے کی منصوبہ بندی ، پوتے پوتیوں کی مستقبل کی فکر ، آنکھیں تب کھلتی ہیں جب ڈاکٹر بتاتا ہے گوڈے گٹے ناکارہ ہونے کی وجہ سے اب یہ نہیں کھانا ،وہ نہیں پینا ، زیادہ پیدل نہ چلنا،لمبی ڈرائیو پر نہ جانا ، گھر میں آرام کرنا ، اس صورتحال میں رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطہ کمزور ہو جاتا ہے اور اکثر یت انکی بھی اسی کیفیت سے گزر رہی ہوتی ہے۔ تنہائی غالب آتی ہے تو مایوسی جنم لیتی ہے۔ اس مقا م پر انسان نہ تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کا شکر ادا کر سکتا ہے۔ جب مایوسی میں مرنے کی سوچ اسے پریشان کرتی ہے تو زندگی آوازیں دے کر ، منتیں کر کے، چیخ چیخ کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ بھلے آدمی مجھے تو جی جاتا، سیٹ ہونے کے چکر میں ادھر ادھر ٹامک ٹویاںمارتا رہا۔ دوسروں کی فکرمیں اپنی زندگی تو جینے کا سوچا ہی نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہم بچے تھے تو بڑوں میں بیٹھنا منع تھا۔ اگر کہیں بیٹھ جاتے تو بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی کہ چپ کرو بڑوں میں نہیں بولا کرتے۔ ہم سوچتے تھے چلو بڑے ہوں گے تو اپنا ما فی الضمیربیان کرنے کی آزادی ہو گی۔مگر بڑے ہو کر کبھی محفل یا گھر میں بچوں کی موجودگی میں بات کرنے کی کوشش کی تو کہا جاتا خیال کرو بچے بیٹھے ہیں۔ ان کی موجودگی میں باتیں کئے جا رہے ہو۔ایسے مواقع بھی آئے کہ کہا گیا چپ کرو افسروں کی موجودگی میں نہیں بولنا ۔ کبھی کہا گیا ماتحتوں کے ساتھ یہ بات نہ کرنا۔ استاد اور عالم کے سامنے بات کرنے میںبھی یہی ان لکھا قانون حائل رہا۔ سماج سے خوفزدہ ہونے کی تربیت ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے۔ کبھی رزق کا خوف کبھی عزت خراب ہونے کا خوف۔ کبھی اپنے کرتوتوں کا خوف ، مستقبل کا خوف ، دوسروں کے ساتھ کئے ہوئے ناروا سلوک کے رد عمل کا خوف اور سماج کا خوف۔ جس معاشرے میں انسان انسانیت کے حوالے سے نہیں بلکہ دولت اور طاقت کے حوالے سے زندہ ہو تو خوف اور پریشانی اور بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں انسان ہجوم میں گم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور رشتوں کا "مان" بھی بس" گمان" ہی ثابت ہوتا ہے۔ محسوس ہونے لگا کہ ہماری بولنے کی باری آئی ہی نہیں۔ یہ غالبا اسی کا نتیجہ ہے کہ جس کو جہاں موقع ملتا ہے جو منہ میں آتا ہے بولنا شروع کر دیتا ہے۔ ٹی وی پر دیکھے جانے والے ٹاک شوز اورسوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور آڈیوز اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
ہم مذہبی ، سماجی ، روایتی اور محکمانہ قد غنوںمیں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ خلاف ورزی کے نتیجے میں عدم تحفظ اور خوف کے سائے میں زندگی بسر کر کے اپنا خون خشک کئے رکھتے ہیں۔ آزاد پنچھیوں جیسی قانع زندگی ہمارے ہاںکسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ لہذا ہم اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے جینا بھول گئے ہیں مگر ایک چھوٹے سے طبقے کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ وہ معاشرے میں جیسے چاہیں زندگی بسر کریں۔ وہ جب چاہیں جہاں چاہیںاپنی روایات اور قانون بھی اپنے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ مگر ہماری اکثریت امیدوں سے بندھے اس پرندے کی مانند ہے جوزندہ بھی امیدوں پر ہے اور گھائل بھی امیدوں پر ہے۔ ایسے میں قناعت انسان کے لئے بہت بڑی ڈھال اور آسراہوتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے اس سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے جس طرف جائیں شکستہ دل اور مایوس انسانوں کے مجمے ہیں۔خوبصورت کپڑوں کے نیچے غلیظ جسم اور صحت مند چہروں کے سینے میں ٹوٹے ہوئے دل نظر آتے ہیں۔ فرد بھی اداس ہے اور گروہ بھی۔جس کے پاس سب کچھ ہے وہ جھولی بھی بھرنا چاہتا ہے۔ جس کی جھولی بھری ہوئی ہے اس کی آنکھ بھوکی ہے۔ جس کی آنکھوں میں بھوک نہیں اس کی روح سوگوار ہے۔ ہم جتنی بھی ترقی کر لیںآسمان سے ستارے توڑ کر ہر ایک انسان کے ہاتھ میں ایک ایک ستارہ دے دیںپھر بھی اس کی حوس ختم نہیں ہو گی اور نہ فطرت بدلے گی۔اسی لئے کہتے ہیں کہ خود کشی کی موت اللہ نے اور زندگی اس طرز عمل نے حرام کر رکھی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک ولی کامل پہاڑوں میں نکل گئے پیچھے دیکھا ایک آدمی آرہا تھا ۔ ولی نے پوچھا "کیا چاہتے ہو"۔ آدمی بولا غریب آدمی ہوں کچھ عنایت کریں۔ ولی نے پہاڑ کی طرف انگلی اٹھائی پہاڑ سونے کا ہو گیا۔ ولی چل پڑے ، دیکھا تو وہ آدمی پھر آرہا ہے۔ آپ نے پوچھا "ا ب کیا چاہیئے"۔ عرض کیا" تھوڑاہے"۔ ولی نے دوسرے پہاڑ کی طرف انگلی اٹھائی وہ بھی سونے کا ہو گیا۔ اسی طرح تیسری اور چوتھی طرف انگلی اٹھائی چاروں طرف کے پہاڑ سونے کے ہو گئے۔ ولی چل پڑے ، دیکھا تو آدمی پیچھے آ رہا ہے۔ ولی نے پوچھا "اب کیا چاہیئے"؟۔ اس نے عرض کیا حضور آپ کی انگلی۔