جمعرات ‘ 17؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 3؍ دسمبر 2020ء

عوام پی ٹی وی پر ترک ڈرامہ یونس ایمرے ضرور دیکھیں: وزیراعظم
یونس ایمرے قدیم ترکی کے نامور شاعر ہیں جنہیں ترکی زبان کا پہلا عوامی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے عربی اور فارسی کی بھاری بھرکم اصطلاحات اور الفاظ کو چھوڑ کر آسان عوامی زبان (ترکی) میں فلسفہ اخلاقیات‘ مذہب اور تصوف کے پیغام کو اپنی شاعری سے عام کیا اور مقبولیت کی سند پائی کیونکہ قدیم ترکی میں علم و ادب اور شاعری کی تمام اصناف پر عربی اور فارسی کا غلبہ تھا۔ یوں انہیں ہم ترکی کا غالب بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہی کام غالب نے برصغیر میں کیا اور خود اس کا اظہار بھی یوں کیا۔
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالب سے پہلے ہمارے ہاں بھی فارسی اور عربی کا راج تھا۔ غالب نے اردو کو ان کے چنگل سے نکالا اور عوامی بولی کو رواج دیا۔ مزاج کے لحاظ سے تو وزیراعظم کو چاہئے تھا کہ سکہ رائج الوقت کے مطابق ’’ارطغرل غازی‘‘ دیکھنے کی تلقین کرتے مگر شاید انہیں لگ رہا ہے کہ اس طرح عوام جارحانہ مزاج نہ اپنا لیں۔ اس لئے وہ انہیں یونس ایمرے کے بادہ و جام۔ لب و رخسار اور گل و بلبل والے ماحول میں لے جا کر تر دماغ اور پرسکون رکھنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک یہ ڈرامہ سیریل اتنی مقبول نہیں ہوئی۔ شاید وزیراعظم کے مشورے کے بعد اس کی بھی گڈی چڑھ جائے۔ ویسے اس وقت تو ’’ارطغرل غازی‘‘ نے ہر جگہ دھوم مچائی ہوئی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
سپریم کورٹ نے 10 بلین ٹری منصوبے کا ریکارڈ طلب کرلیا
ملین ٹری ہوں یا بلین ٹری لگانے کی باتیں۔ یہ سب ابھی خواب و خیال ہی ہیں۔ ایسی باتیں صرف کہنے سننے یا محفل کو گرمانے کی حد تک اچھی لگتی ہیں۔ حقیقت میں ان کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔ 10 ارب درخت لگانا خالہ جی کا گھر نہیں۔ اتنی تو گنتی کوئی یاد نہیں رکھ سکتا۔ اس مسئلہ پر عدالتوں میں کئی کیس بھی زیرسماعت ہے ایک کیس میں عدالت نے محکمہ جنگلات اور موسمیات والوں کی خوب کلاس لی ہے۔ ان سے پوچھا ہے کہ دو ماہ میں وہ کسی ایک جگہ کی بھی نشاندہی کردیں جہاں لاکھوں درخت لگے ہیں۔ تصاویر یا گوگل ریسرچ ویب سے ہی وہ جگہ دکھا دیں۔ سب سے زیادہ شامت اسلام آباد انتظامیہ کی آئی جن سے ان کے لگائے گئے 5 لاکھ درختوں کا ریکارڈ طلب کیا گیاہے جس کے نہ دینے پر عدالت نے کہا کہ کیا یہ سب بنی گالہ میں لگائے ہیں۔ وفاقی حکومت کے مہربانوں نے ساری ذمہ داری صوبوں پر ڈالتے ہوئے بتایا کہ شجرکاری کا کام صوبوں کے ذمے ہے۔ اس پر بلوچستان اور سندھ کی شاہراہوں کی ویرانی پر عدالت نے پوچھا کہ کیا کسی قومی شاہراہ پر کوئی درخت لگا ہے۔ بلوچستان کا توحال ہی مت پوچھیں وہاں کیا خاک درخت لگے ہیں۔ سندھ میں بھی بلین ٹری نامی سونامی کا گزر نہیں ہوا۔ ہر طرف وہی ویرانی نظر آتی ہے۔ خدا کرے اب عدالت کی طرف سے اس معاملے کی چھان بین سے ویرانوں کا مقدر جاگ جائے اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے ویرانوں میں ہریالی نظر آنے لگے۔ ویران سڑکوں پر درختوں کی چھائوں سے مسافر شدید موسموں کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ کاش ہمارے حکمران یہ جان لیں کہ پہلے دور میں جب اونٹوں، گھوڑوں اور بیل گاڑیوں پر سفر ہوتا تھا ہر حکمران مسافروں کے آرام کیلئے سڑکوں کے دونوں اطراف شجرکاری کرتے تھے تاکہ مسافروں اور ان کے جانوروں کو سایہ میسر آئے ۔ ہم تو سڑکیں بنانے کیلئے الٹا درختوں کو ہی کاٹ کر پھینک رہے ہیں۔ لگانا تو دور کی بات ہے۔
٭٭٭٭٭٭
اسلام آباد ہائیکورٹ: خاتون اسسٹنٹ رجسٹرار 10 سال نوکری کے بعد جعلی ڈگری پر فارغ
آفرین ہے اس شیر دل خاتون پر کہ وہ اس عرصہ ملازمت کے دوران ذرا بھر بھی خوفزدہ نہیں ہوئیں اور دھڑلے سے جعلی ڈگری پر 18 ویں گریڈ کی افسری کے مزے لوٹتی رہیں۔ یہ سب کچھ وہ قانون کی ناک کے نیچے کرتی رہیں۔ یہ تو کسی رقیب نے ان کی ڈگری کا بھانڈا پھوڑا ہوگا تب جاکر اس کی تحقیقات ہوئی۔ اب معلوم نہیں عدالت اس سے 10 سالہ ملازمت کی تنخواہ، الائونس اور مراعات کی رقم کی واپسی کا تقاضہ کرے گی یا اسے ماں کا دودھ سمجھ کر معاف کردے گی۔ ایسے لوگ کسی رعایت کے قابل نہیں ہوتے۔ اس فیصلے کو سارے ملک کیلئے مثال بنایا جائے اور جہاں جہاں جعلی ڈگریوں پر لوگ سرکاری ملازمتیں کررہے ہیں ان کو نکال کر ان سے تمام رقم واپس وصول کی جائے تاکہ ایسا سوچنے والے دوسرے بھی خبردار رہیں۔
اس خبر کے ساتھ ایک بڑی خبر یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے بھی پنجاب بار کونسل کے امیدواروں کی ڈگریوں کی تصدیق کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دے دی ہے تاکہ کالے کوٹوں کے تلے بھیڑوں کے ریوڑ میں چھپے بھیڑیوں کو نکالا جاسکے۔ یہ تو ابھی صرف الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کی سکریننگ کا عمل ہے۔ اگر تمام وکلا کی ڈگریوں کی تصدیق کا حکم آگیا تو پھر کیا ہوگا۔ بوگس اداروں کالجوں کی تو الگ بات ہے‘ یہاں تو پنجاب یونیورسٹی جیسے مستند ادارے سے بھی جعلی ڈگریوں کے اجراء کی کہانیاں نکل رہی ہیں۔ جعلی ڈگریاں لے کر کالا کوٹ پہننے اور افسریاں دکھانے کی شوقین یہ کالی بھیڑیں کہاں جائیں گی۔ ایک دو ہو تو کو ئی بات نہیں یہاں بھی تعداد سینکڑوں سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ امید ہے یہ کام بھی لاہور ہائیکورٹ جلد کرا کے ایماندار وکیلوں کی دعائیں لے گی جو اس دور آشوب میں بمشکل اپنی عزتیں بچائے بیٹھے ہیں۔