سودی نظام، آئین اور قانون کا کھلواڑ

جماعت اسلامی نے سودی نظام کے انسداد کے لئے ملک گیر احتجاجی مہم شر وع کر رکھی ہے، میںنے چند رز قبل اس پر کالم تحریر کیا، اسے پڑھ کربرادرم فرید پراچہ نے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ ایک عرصے سے اس مقصد کے لئے آئینی اور قانونی جد و جہد کر رہے ہیں اور جماعت کی موجودہ مہم کو بھی انہوں نے ایک تحریک کی شکل میںمنظم کرنے میں کردارا دا کیا ہے۔ انہوں نے مجھے وہ تفصیل بتائی جو سود کے خاتمہ کے لئے آئین اور قانون میںموجود ہے مگر ا س کے راستے میں بلا وجہ رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔برادرم فریدپراچیہ سے جو بات چیت ہوئی ا سکا خلاصہ پیش خدمت ہے ۔
حضرت قائد اعظم نے جب انیس سو اڑتالیس میں اسٹیٹ بنک کا افتتاح کیا تھا تو اس وقت انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہمارے معاشی ماہر سود سے پاک اسلامی معاشی نظام کے لیے کام کریں کیونکہ مغرب کا نظام ناکام ہے انیس سو انچاس کی قرار داد مقاصد اور اکتیس علمائے کرام کے جو بائیس نکات ہیں ان میں بھی یہ بات واضح کی گئی، انیس سو چھپن کے دستور میں بھی سود کے خاتمے کا ذکر تھا اور انیس سو انہتر میں اسلامی مشاورتی کونسل نے جو اس وقت کے آئین کے مطابق تھی اپنے ڈھاکہ میں ہونے والے اجلاس میں یہ کہا تھا کہ بنکوں کے قرضوں اور ، حکومتی سیونگز اسکیمز سے سودکو ختم کیا جائے ۔ انیس سو تہتر کے آئین میں آرٹیکل اکتیس ایف ہے جس میں ریاست کو پابند کیا گیا کہ وہ جلد از جلد معیشت کو سود سے پاک کرے اور یہاں پر پورے معاشی ، معاشرتی نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نو سال کی مدت مقرر کی گئی ، انیس سو بیاسی میں اس کی تکمیل ہو جانی چاہئے تھی ۔انیس سو ستتر میں جنرل ضیاء الحق نے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کو کیس بھیجا اور انہوں نے ان کو کہا کہ بلا سود معیشت کے لیے پلان تیار کریں انیس سو اسی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے پندرہ ماہرین نے بنک کاری کے متعلق اور معیشت کے متعلق ایک جامع رپورٹ تیار کی کہ یہ سود کے بغیر ہو سکتے ہیں ، اس دوران مارک اپ کے جو قواعد شروع کیے گئے وہ علمائے کرام نے سود کہہ کر مسترد کر دیے۔ انیس سو نوے میں پروفیسر خورشید احمد کی سربراہی میں خود انحصاری کمیٹی نے تمام معیشت اور خاص طور پر بیرونی قرضے ، درآمدات برآمدات اس سارے نظام کو سود سے پاک کرنے کے لیے ایک جامع لائحہ عمل پیش کیا ۔ انیس سو اکانوے میں وفاقی شرعی عدالت کے جسٹس خلیل الرحمن خان صاحب نے بنکوں کے انٹرسٹ کو رباء قرار دیا اور سود پر مبنی بیس قوانین کو کالعدم کرتے ہوئے حکومت کو چھ ماہ کی مدت دی کہ متبادل قانون سازی کریں انیس سو ننانوے میں حکومت پھر اپیل میں چلی گئی اور سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے انیس سو اکانوے کے وفاقی شرعی عدالت کے حکم کو بر قرار رکھا ، حکومت کی اپیل ریجیکٹ کردی اور اس طرح سے ان کے ساتھ یہ بھی اپنے فیصلے میں لکھا کہ سود ایکٹ اٹھارہ سو انتالیس سمیت تمام سودی قوانین اگر انہوں نے ختم نہ کیے تو تیس جون دو ہزار ایک کو یہ خود بخود کالعدم ہو جائیں گے ،دو ہزار ایک میں حکومت پھر سپریم کورٹ میں چلی گئی ، اس وقت تک پرانے جج ریٹائر ہوچکے تھے اور نئے ججوں نے پھر معاملات کو وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا ۔ دو ہزار دو سے لے کر دو ہزار بارہ تک وفاقی شرعی عدالت نے اس معاملے کو بالکل بھی نہیں چھیڑا۔ اس کے بعد کئی پٹیشنز دائر کی گئیں ، ان میں ایک پیٹیشن میری بھی ہے۔ہم نے وفاقی شرعی عدالت سے کہا کہ اسے دوبارہ شروع کریں ، چنانچہ انہوں نے اسے شروع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن معاملہ حیلے بہانے سے ٹال دیا گیا۔ اس کے بعد دو ہزار بارہ سے دو ہزار بیس تک آٹھ سال ہو چکے ہیں تین بنچ میں تبدیل ہو چکے ہیں ، چیف جسٹس بدل گئے ہیں اور پہلی ساری کاروائی ختم ہو گئی اور پھر دوبارہ اب شروع ہوئی تو اس وقت سے اب تک ہم وفاقی شرعی عدالت میں پھر رہے ہیں اور وفاقی شرعی عدالت کچھ بھی نہیں کر رہی اور تاریخوں پر تاریخیں دے رہی ہے ، ابھی پھر دوبارہ ایک نئے چیف جسٹس آئے ہیں اور مجھے پتہ چلا کہ تیس نومبر کو اس کی شنوائی ہوئی ہے۔
یہ ہے رام کہانی سود کے خاتمے کی کوششوں کی ناکامی کی۔ہر مسلمان جانتا ہے کہ سود حرام ہے۔یہ اللہ کے خلاف جنگ ہے۔ حضور ﷺ نے سود کے خاتمے کا اعلان اپنی زبان مبارک سے کیا مگر پاکستان کی اسلامی نظریئے پر بننے والی ریاست آج تک سود کو گلے سے لگائے بیٹھی ہے اور خود بھی اورعوام کو بھی جہنم کا راستہ دکھا رہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کو سارا آئین حفظ ہے مگر اس کا وہی حصہ جو انکے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ جس سے ان کی جمہوریت چلتی ہے مگر دین کی بات ماننے کو کوئی تیار نہیں۔ اسی ڈھٹائی اور بے حسی کے خلاف عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے جماعت اسلامی میدان میں نکلی ہے۔
مجھے اس موقع پر یاد آ رہا ہے کہ میاںنواز شریف اور اسحاق ڈار اپنے کلاس فیلو سعید احمد چمن کو اسٹیٹ بنک میں اس مقصد کے لئے لندن سے لائے تھے تاکہ یہاں بلا سودی بنکاری کا نظام روشناس کیا جاسکے۔ کم ازکم چمن صاحب نے مجھے تو یہی بتایا تھاا ور اسی کے پیش نظر میںنے کالم لکھا کہ پاکستان میں غیر سودی بنکاری کی ساعت سعید۔ محترم سعید صاحب اپنے شعبے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں ، عالمی مالیاتی ا داروں میں اعلی
ترین مناصب پر کام کر چکے ہیں مگر میں ان سے یہ نہیں معلوم کر سکا کہ انہوںنے اپنے مشن کو کس طرح اورکس حد تک آگے بڑھایا ۔ یا یہ فریضہ افسرشاہی کے سرخ فیتے اور عدلیہ کے جھمیلوں کی وجہ سے رکا رہا، میرا یہ کالم سعیداحمد چمن صاحب کی نظر سے گزرے تو وہ مجھے اس بارے پیش رفت سے ضرور آگا ہ فرمائیں۔تاکہ میں یہ معلومات قارئین کے سامنے رکھ سکوں۔
٭…٭…٭