کشمیر پر قرار داد ،بھارت میں صف ماتم

الحمداللہ ! ایک طویل عرصے بعد مسلمانوں کی واحد متحرک تنظیم ’’اسلامی تعاون تنظیم ‘‘ کے وزراء خارجہ کے 47 ویںسالانہ اجلاس نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سفاکانہ مظالم اور بین الاقوامی قرادوں کی روشنی میں ایک بہت ہی بھرپور قرارداد منظور کی، جس سے بھارت میں صف ماتم بچھ گئی اور بھارتی حکمرانوںکے جسم کے ہر ممکنہ حصے سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آنے لگا ، جس کا اندازہ بھارتی میڈیا کی خبروں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ، آخر کب تک بھارتی ہٹ دھرمی امت مسلمہ نظر انداز کرے گی۔ بھارت اپنے تجارتی حجم کی وجہ سے مسلم ممالک کو خاموش ہونے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اسکی ہٹ دھرمیوں ، غیر انسانی سرگرمیوں، کشمیر میں نہتے لوگوںکے قتل عام پر کچھ نہ بولیں۔ جن حقیقتوںسے خود بھارتی دانشور ، اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پردہ اٹھا رہی ہیںانکے متعلق بھارت نہ صرف مذمت کررہا ہے بلکہ اسلامی دنیا کے 57 ممالک کی اس تنظیم کو دھمکیاںبھی دے رہا ہے جو بھارتی سفاکی کی مظہر ہیں۔ ہندوستان نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) پر سختی سے نپٹنے کی دھمکی دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اس نے جموں و کشمیر کے حوالے سے ''حقیقت میں غلط اور غیرضروری'' حوالہ جات بنانے کا الزام عائد کیا ہے جو نائجر میں ایک اجلاس میں اس گروپ کی طرف سے منظور کی جانے والی قراردادوں میں پیش کیا گیا تھا۔ ایک سخت الفاظ میں بیان میں، ہندوستان نے او آئی سی کو مستقبل میں اس طرح کے حوالہ جات دینے سے باز رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ یہ گروہ بندی ایک خاص ملک ( پاکستان ) کے ذریعہ اپنے آپ کو استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے ''بھارت نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ پاکستان کا مذہبی رواداری، بنیاد پرستی خراب ریکارڈ ہے۔
اقلیتوں پر ظلم '' پاکستان میںعام ہے بھارتی وزارت بیرون ملک خارجہ امور نے OIC کی قرار داد پر بہت واویلا مچایا ہے۔ اور قرارداد میں کہے گئے الفاظ کو ہندوستان کے بارے میں حقیقت کے غلط، غیر منقول اور غیر تصدیق شدہ حوالوں کو سختی سے اور واضح طور پر مسترد کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ اعداد و شمار غلط ہیں، 5 اگست کی کاروائی غلط ہے تو بھارت کیوں OICکے شعبہ انسانی حقوق ، اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں، کشمیری لیڈر شپ، پاکستانی مندوبین کو مقبوضہ کشمیرکا دورہ نہیں کراتا ، جب بھی کوئی مقبوضہ کشمیر کے دورے کی بات کرتا ہے بھارت میں صف ماتم بچھ جاتی ہے ۔بدبودار دانشور بھارتی میڈیا پر بھارتی پیشہ ور مسٹنڈے پاکستان کے خلاف واویلا شروع کردیتے ہیں جبکہ بات تو مقبوضہ کشمیر کی ہورہی ہے ۔جس کی سفارتی مدد کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا لازمی جزو ہے ۔ جب بات چیت کا عمل شروع کرنے کی بات ہوتی ہے تو بھارت نہایت بچگانہ انداز میں آزاد کشمیر کی بات کرنا شروع کردیتا ہے اور ہمیشہ بات چیت سے اپنا نچلا جامہ چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔
بھارتی سورماء کہتے ہیں او آئی سی اس کی مجاز نہیں کہ وہ بھارت کے معاملات میں دخل اندازی کرے ، بھارت کو ہمیشہ او آئی سی کے اجلاس کے وقت اپنی وزارت خارجہ کی آنکھیںکھولنا پڑتی ہیں نائیجر کی حالیہ کانفرنس میں بھارت نے ایک مرتبہ پھر سابقہ UAEمیںمنعقدہ کانفرنس کی طرح یہ کوشش کی تھی اسکا مندوب کانفرنس میں بیٹھے ،بھارت کی اس سازش کو ناکام بنانے میں نائجیر میں پاکستانی سفیر احمد سروہی بلکہ پاکستانی وزارت خارجہ کے دیگر افراد نے نے سرگرمی دکھائی جو پاکستان کیلئے ایک قابل ستائش اقدام تھا ، او آئی سی کے حوالے سے گزشتہ دنوں پاکستان کے کچھ ذمہ داران نے غیر معقول قسم کے بیانات دئیے تھے مگر او آئی سی کے ممبر ممالک نہائت ذمہ دار ہیں انہوںنے تمام صورتحال کا جائزہ لیکر اجلاس میں نہ صرف سیر حاصل بات چیت کی اور پاکستان کی جانب سے پیش کیئے جانے والے مقبوضہ کشمیر کے متعلق تمام امور معلومات حاصل کیں ، اسکے لئے شاہ محمود قریشی نے براہ راست اجلاس ہی میں نہیںبلکہ اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں بھی کیںایک طویل اور مستقل سفارتی کوشش جو گزشتہ 15 ماہ تک جاری رہی کے بعد، پاکستان کو کشمیر کے بارے میں ایک مضبوط قرارداد منظو رکرانے میں مدد حاصل ملی، اس اجلاس میں اطلاعات کے مطابق نئے سیکریٹری جنرل کی نامزدگی کے بعد دوسرا اہم مسئلہ کشمیر میں بھارتی جارحیت تھا ۔ حقیقت میں یہ پاکستان کی شاندار فتح ہے ، کشمیری مجاہدین کی قربانیوںکا صلہ ہے کیوں کہ اسلامی دارالحکومتوں میں غیرمعمولی لابنگ کے باوجود، کشمیر او آئی سی کے سرکاری ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا۔ تاہم، یہ بعد میں پاکستان کے زیر اہتمام ایک قرار داد کی شکل میں سامنے آیا۔مقبوضہ کشمیر پر او آئی سی کے ذریعے ایک مضبوط قرارداد جو یقینا حکومت پاکستان کی فتح ہے تحریک انصاف کی حکومت کو حزب اختلاف کے سامنے بھی سرخرو کردیا ہے کہ ــ’’کشمیر پر تحریک انصاف نے کوئی سودے بازی نہیں کی ، جو ہماری حزب اختلاف کے جلسوں میں بیان کیا جاتی ہے ۔ کشمیر کی قرارداد منظور کروانے میں کامیاب ہو گئی ، اس صورتحال میں اب پاکستانی وزارت خارجہ کے کام میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ قرارداد میں بھارت سے ''جموں وکشمیر تنظیم نو آرڈر 2020''، ''جموں وکشمیر ڈومیسائل سرٹیفکیٹ رولز 2020''، ''جموں و کشمیر گرانٹ آف ڈومیسائل سرٹیفکیٹ رولز'' سمیت دیگر ''یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات'' کے علاوہ غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجراء کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اور کشمیر لینگوئج بل 2020 ’’اور زمینداری کے قانون میں ترمیم۔نیز آر ایس ایس-بی جے پی حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے، او آئی سی کے 57 ممالک نے ہندوستان سے مطالبہ کیا کہ وہ متنازعہ علاقے کے موجودہ آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی اقدام اٹھانے سے باز رہے۔او آئی سی کا آئیندہ سالانہ اجلاس اسلام آباد میں ہوگا۔ اس وقت تک پاکستان کی وزارت خارجہ کو بھر پور کام اور حزب اختلاف کو کشمیر کے مسئلے پر حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے ۔