جمالی صاحب اب کبھی بغیر بتائے میرے گھر نہیں آئیں گے!!!!!!

زندگی میں کئی بار ایسا ہوا کہ گھر کی بیل بجتی دروازے پر جاتا تو سامنے مسکراتے چہرے کے ساتھ میر ظفر اللّہ خان جمالی نظر آتے لیکن گذشتہ روز وہ ایسے سفر پر گئے ہیں کہ کبھی واپس نہیں آئیں گے اور میں کبھی دوبارہ ان کا مسکراتا ہوا چہرہ نہیں دیکھ سکوں گا۔ وہ جب بھی لاہور آتے میرے گھر بغیر اطلاع کے ملنے آتے میں دروازے پر جاتا تو ان کی مسکراہٹ سے ہفتوں کی تھکان اور ساری پریشانیاں ختم کر دیتی تھی۔ اتنی خالص مسکراہٹ میں نے پاکستان کے کسی سیاست دان کی نہیں دیکھی۔ کیا کمال شخصیت تھے۔ ملک کے وزیراعظم بن گئے لیکن عاجزی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ نہایت ملنسار، بااخلاق، مہمان نواز، بلوچ روایات کے امین، محب وطن، اتحاد و اتفاق کی فضا کو قائم رکھنے کے لیے کام کرنے والے، انہوں نے آخری وقت تک اتوار کے روز اپنے پرانے اور کمزور دوستوں کے ساتھ ناشتہ کرنے کی عادت ترک نہیں کی۔ بڑے بڑے عہدے ان کے مزاج پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ تکبر سے بہت دور، بہت زیادہ دور، نفرت سے بیپناہ نفرت کرنے والے میر ظفر اللہ خان جمالی قد آور سیاست دان ہی نہیں بہت اعلیٰ انسان تھے۔ ملک میں ایسے انسانوں کی شدید کمی محسوس کی جاتی ہے۔ میرا ان سے کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا نہ میں نے ان کے ساتھ کبھی سیاسی حیثیت میں کام کیا، نہ ان کے اقتدار کے دنوں میں کوئی سرکاری ذمہ داری نبھائی۔ میرا ان سے تعلق نہایت ذاتی اور قریبی تھا۔ وہ میرے بیٹوں احمد اور انس اور میرے نواسے ابان سے بہت پیار کرتے تھے۔ احمد اور انس کے ساتھ دیر تک ذاتی گفتگو کرتے رہتے تھے یہ ان کی شفقت تھی۔ جب بھی فون پر بات ہوتی ہمیشہ بچوں کا پوچھتے۔
ایک مرتبہ میں نے پوچھا جمالی صاحب آپ آنے سے پہلے اطلاع دے دیا کریں ممکن ہے کبھی میں گھر سے باہر ہوں تو آپ کو انتظار کی زحمت ہو کہنے لگے چودھری صاحب اپنے گھر آنے کی اطلاع کون دیتا ہے۔ وہ میرے گھر کو اپنا گھر سمجھتے تھے۔ دیر تک باتیں کرتے رہتے، ان کے ساتھ کبھی وقت گذرنے کا احساس نہیں ہوا شاید یہ سب ان کے اخلاص اور محبت کا نتیجہ تھا۔ میرے گھر ان کی کئی ملاقاتیں ہیں کبھی پروٹوکول کا خیال نہیں کیا، کبھی تکلفات میں نہیں پڑے۔ کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے یا بڑے بڑے عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ بااثر اور طاقتور لوگوں سے ملتے تو اپنے روایتی انداز میں، وہ کمزور لوگوں سے ملتے تو ان کی گفتگو اور لب و لہجے میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بڑوں کی عزت کرنے والے، چھوٹوں سے شفقت کے ساتھ پیش آنے والے میر ظفر اللّہ خان جمالی نہایت نفیس انسان تھے۔
چند ہفتے قبل ان کے ساتھ اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تو صحت کی خرابی کے باوجود انہوں نے پرتکلف کھانے کا اہتمام کیا۔ وہ ایک شاندار میزبان تھے۔ آداب میزبانی کوئی ان سے سیکھے۔ میر ظفر اللّہ خان جمالی کے دستر خوان پر کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ نہ اخلاص کی نہ ذائقے کی، وہ حقیقی معنوں میں بلوچ روایات کے امین تھے، وہ حقیقی معنوں میں متحد پاکستان کی آواز تھے، وہ بلوچستان کی محرومیوں پر بات کرتے ہوئے کبھی مصلحتوں کا شکار نہیں ہوئے۔
میر ظفر اللہ خان جمالی کی خاصیت تھی کہ انہوں نے کبھی سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت میں نہیں بدلنے دیا۔ وہ سیاسی معاملات کی وجہ سے کبھی ذاتی تعلقات خراب نہیں ہونے دیتے تھے یہ ان کا خاصہ تھا کہ سب ان کا احترام کرتے تھے۔ مضبوط کردار کی وجہ سے ان کا ایک الگ اور منفرد مقام تھا۔ وہ سیاسی معاملات میں تلخی کے بجائے تحمل مزاجی کے قائل تھے اور زبردست قوت سماعت کے مالک تھے۔ چونکہ انہوں نے سیاست کو کاروبار نہیں بنایا سیاست کو خدمت کے طور پر اپنایا اور آخری دم تک اسے خدمت ہی سمجھتے رہے اور یہی ورثہ اپنے بچوں تک چھوڑ کر گئے ہیں۔ مجھے انہوں نے اپنی زندگی پر کتاب لکھنے اور اپنے سیاسی سفر میں پیش آنے والے واقعات پر کتاب لکھنے کے لیے بھی کہا گوکہ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا لیکن اس کے باوجود میں یہ کام نہ کر سکا۔ جمالی صاحب سمجھتے تھے کہ جو تلخ حقائق اور واقعات ان کے پاس ہیں ان کا نوجوان نسل تک پہنچنا ضروری ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ اقتدار کے ایوانوں میں عوامی جذبات کے ساتھ کھیلنے والوں کے کھیل عوام کے سامنے رکھیں جائیں اور یہ امانت قوم کے سپرد کر دی جائے لیکن میں ان کی زندگی کے سفر کو لکھنے میں ناکام رہا۔ 2002 میں ان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بلوچستان ہاؤس میں ہونے والی ملاقات بھی بہت یادگار ہے۔ میں نے ان کے ساتھ بہت سفر کیا، بہت وقت گذارا۔ وہ ہماری سیاسی تاریخ کا روشن چہرہ تھے۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "کل نفس ذائقہ الموت" "کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتافااحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون"
بے شک موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہمیں اللہ نے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ ہمارا سفر ہی اللہ سے اللہ تک کا ہے۔ ہمیں کہیں جا نہیں سکتے، نہ ہم زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہیں نہ ہم آسمان سے نکل کر کہیں جا سکتے ہیں، نہ ہم پہاڑوں سے گذرتے ہوئے کسی اور دنیا میں جا سکتے ہیں نہ ہم سمندروں میں سفر کرتے اللہ کی حدود سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ہم زندگی بھر سفر کرتے رہتے ہیں لیکن یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ لوگ جانے والوں کے نام بھی بھول جاتے ہیں لیکن میر ظفر اللہ خان جمالی بھلائی جانے والی شخصیت نہیں ہیں۔ بلوچستان اپنے اس عظیم سپوت کو کبھی نہیں بھلا پائے گا۔ انہوں نے ساری زندگی بلوچوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گذاری ہے۔ انہوں نے ساری زندگی بلوچستان کو اس کا جائز حق دینے کے لیے آواز بلند کی، وہ ہمیشہ کہتے تھے پاکستان بلوچستان ہے اور بلوچستان پاکستان ہے۔ وہ ہمیشہ بلوچ سرداروں کو قومی دھارے میں شامل کرنے پر زور دیتے تھے۔ وہ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے اور اپنے لوگوں کے تحفظات کو ختم کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ بلوچستان کو میر ظفر اللّہ خان جمالی کی کمی محسوس ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔ ان کے خاندان کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور انہیں میر ظفر اللّہ خان جمالی کے مقصد کو زندہ رکھنے کی توفیق عطائ فرمائے۔ میر ظفر اللّہ خان جمالی دنیا سے گئے ہیں لیکن ان کا مقصد زندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین