انگلستان لاک ڈائون میں مشروط نرمی

انگلستان میں پھیلی Covid-19 وائرس میں قدرے کمی کے حوالہ سے اب اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں سے جاری سیکنڈ لاک ڈائون کو مزید احتیاطی تدابیر اپنانے کی شرط کے ساتھ نرم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تا کہ کرسمس تہوار اور روایتی شاپنگ کو کم سے کم رکاوٹوں میں خوشیوں کا گہوارہ بنایا جا سکے۔
2 دسمبر 2020 سے کھلنے والے لاک ڈائون کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم بورس جانسن نے اگلے روز اپنے ورچوئل خطاب میں واضح کیا کہ اس لاک ڈائون کے خاتمے کے بعد وہ اس میں مزید توسیع کا یوں ہرگز ارادہ نہیں رکھتے۔ تاہم مقامی پابندیاں بدستور قائم رہیں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ Tier 2 کے تحت دکانیں‘ جم اور عبادت گاہیں اب کھولی جا رہی ہیں جبکہ Tire 3 والے علاقوں میں شراب خانے اور انفیکشن زدہ علاقوں میں پابندیاں بدستور نافذ رہیں گی۔
یاد رہے کہ برطانوی حکومت کو کرونا کے شدت سے بڑھتے واقعات اور ہلاکتوں کو روکنے کیلئے دو ماہ قبل مجبوراً Tier Ristrictions زونز متعارف کرانے پڑے تا کہ اس موذی وائرس کے بڑھتے اثرات پر قابو پانے میں آسانی رہے۔ مگر افسوس! لوگوں کی جانب سے احتیاطی تدابیر مکمل طور پر عمل پیرا نہ ہونے کی بناء پر انگلستان سمیت سکاٹ لینڈ‘ ویلز اور آئر لینڈ میں جہاں اموات میں اضافہ ہوا۔ وہاں متاثرین کی شرح بھی بڑھ گئی چنانچہ ان حالات میں حکومتی سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ لاک ڈائون اور کرونا کے بڑھتے واقعات پر فوری قابو پانے کیلئے اس موذی وبا کی درجہ بندی کی جائے تا کہ شہریوں کی زندگی کو محفوظ ترین بنایا جا سکے۔
لندن میں کرونا کی بڑھتی شرح کو کم کرنے کیلئے جہاں مزید حفاظتی اور احتیاطی اقدامات کئے جا رہے ہیں وہاں Tier 2 کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے تا کہ شہر اور کرسمس کی رونقوں سے دوبالا ہونے والے سیاحوں کو کم سے کم پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے گھومنے پھرنے کی آسانی رہے۔ Tier Syetem میں درجہ دوم کا بنیادی مفہوم ہی یہ ہے کہ ہر شہری صحت کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے۔ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرے کہ تشخیصی نظام کو مزید موثر بنانے اور برطانیہ بھر میں اسے آزادانہ طور پر متعارف کرانے کیلئے عملی کردار ادا کرنا ہو گا۔
وزیراعظم بورس جانسن نے جو دوسری بار Self Isolation کا شکار ہو کر صحت یاب ہوئے ہیں مزید کہا ہے کہ کرونا سے اضافی احتیاط برتتے ہوئے کرسمس کے موقع پر مزید احتیاط رکھنا ہو گی۔ کرسمس جشن منانے کیلئے تین گھرانوں کو اکٹھا ملنے کی مشروط اجازت ہو گی۔ سفری پابندیاں نرم ہوں گی مگر شراب خانوں اور ریستورانوں میں جانے پر اس لئے پابندی ہو گی تا کہ انفیکشن دوبارہ نہ پھیل سکے۔
متعدد بار میں پہلے بھی اس بارے میں کہہ چکا ہوں کہ کرونا کو غیر سنجیدگی سے لینے کا مطلب موت کو دعوت دینا ہے مگر افسوس کہ ترقی پذیر ممالک کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ اس موذی وبا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اب جس روز سے ویکسین مارکیٹ میں آنے کی اطلاعات آئی ہیں لوگوں نے احتیاطی تدابیر میں بے احتیاطی شروع کر دی ہے جس سے متاثرین میں مزید اضافہ جاری ہے۔ اب تک کی ریسرچ اور ہیلتھ ریگولیٹری ایجنسی کی منظوری کے بعد برطانیہ میں Pfizer Vaccine کو اسی ہفتے مارکیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ برطانوی حکومت نے اپنے پہلے فیز میں 40 ملین کا آرڈر بھی دیا ہے۔ ’’فائزر‘ق ویکسین کے ساتھ Astra Zeneca ویکسین کی منظوری کی سمری بھی تیار کرلی گئی ہے تاہم برطانیہ کی جانب سے کل 100 ملین ڈوزز کا آرڈر دیا گیا ہے جسے ہیلتھ ریگولیٹری ایجنسی کی منظوری کے بعد استعمال میں لایا جائے گا۔
آئیے اب لندن کی بدلتی صورتحال کی جانب! دیگر شہروں کے مقابلے میں یہاں کے نوجوان گورے عاشقوں اور دل دینے اور دل لینے کا منافع بخش کاروبار کرنے والوں اور کرنے والیوں نے Tier 2 نفاذ پر کچھ زیادہ ہی خوشی و انبساط کا اظہار کیا ہے۔ میری کولیگ ’’جولی‘‘ نے جو گزشتہ تین ہفتوں سے ماسک اور سماجی فاصلے کا بری طرح شکار تھی کل ہی ٹیلی فون پر مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ Tier 2 کے نفاذ سے اسے کم از کم اپنے بوائے فرینڈ سے گھر کے باہر سوشلائز ہونے کی آزادی تو ملی ہے۔ احتیاط کرو اور یہ مت بھولو کہ ماسک اتارنے اور سماجی فاصلہ ختم کرنے کا ابھی کوئی اعلان نہیں ہوا۔ تمہارے کسی بھی ایک دوستانہ بوسہ سے تمہاری تین ہفتوں کی کیتی کاتی محنت پل بھر میں ضائع ہو سکتی ہے۔ میں نے اسے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا! جس پر اس نے ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے احتیاط کا وعدہ کیا ہے۔
جہاں تک وطن عزیز میں کرونا کے شدت سے پھیلنے کا معاملہ ہے تو موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے انتہائی ندامت اور شرمندگی کا احساس پیدا ہو رہا ہے دنیا ایک طرف کرونا سے لڑ رہی ہے اور دوسری جانب ہم ہیں کہ کرونا کی سنگینی سمجھتے ہوئے بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ سیاست پر لکھنے سے میں نے ہمیشہ احتراز اس لئے بھی کیا ہے کہ ’’قومی سیاست‘‘ میں پائی جانے والی منافقت پاکستان سے جب برطانیہ منتقل ہوتی ہے تو مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ سالہا سال سے دی گئی قربانیوں سے بنائی عزت و احترام پل بھر میں ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ہاتھ باندھ کر پھر عرض کرنا ہے کہ جلسے جلوس ہوتے رہیں گے۔ لیڈری بھی چمکتی رہے گی۔ غربت پر بھی قابو پا لیا جائے گا مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تمام Social Gathering پر فی الحال Covid-19 سے بچائو کو ترجیح دی جائے۔ صفائی نصف ایمان ہے اب جبکہ حکومت نے ہیلتھ کارڈ کا اجرا بھی کر دیا ہے تو من حیث القوم فرض ہے کہ ہم اپنے گھر‘ اپنی نالی اور اپنے ارد گرد پھیلی گندگی کی صفائی بھی کریں تا کہ کووڈ‘ سموگ اور پلوشن سے نجات مل سکے۔
آخر میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے لندن میں تین برس تک خدمات سرانجام دینے والے کریم مدد صاحب کی وطن واپسی پر دل مغموم ہے کریم مدد انتہائی شریف النفس محنتی اور فرض شناس صحافی ہیں۔ برطانوی پاکستانی انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔