معذوروں سے محبت

اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان پہ جو رحمتوں کا سایہ کررکھاہے اس میں ایک اہم اور قابل شکر رحمت انسانی صحت اور اسکے جسمانی اعضاء کا کامل ہونا ہے اور تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائوگے۔3دسمبر معذوروں کے عالمی دن کے طور پر منایاجاتاہے لیکن راقمہ ان کو معذور نہیں بلکہ خاص لوگ کہہ کر مخاطب کرتی ہے اس لیے کہ معذور یہ لوگ نہیں بلکہ معذور تو میرے اور آپ جیسے صحت مند وہ لوگ ہیں جو مادیت پرستی، مفاد پرستی اور نفس پرستی کے پجاری ہیں۔ ہم اپنی کار کے شیشے پہ دستک دینے والے ہاتھ پہ دس روپے تو رکھ سکتے ہیں مگر دروازہ کھول کر اس کو کارمیں اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتے، چلیں یہ بھی نہ کریں کم ازکم کار سے اترکر اس سے یہ توپوچھ سکتے ہیں کہ اپنی معذور کے ساتھ کیا وہ عزت کی روٹی کمانے کو تیارہے لیکن ایک شخص ایسا ہے جس کو دیکھا گیا کہ جب وہ اپنے دونوںبازئوں سے محروم ہوگیا تو وہ سرفی کول کی گولیاں بیچنے لگا، اسے جو پیسہ بازو لگانے کیلئے گورنمنٹ نے دیا اس کردار کے غازی نے اس سے بازو اس لیے نہیں لگوائے کہ آج میں لاکھوں روپے صرف اپنی ذات پہ خرچ کرلوں اور کل میری زندگی ختم ہوجائے تو میں خود کو اس دنیا کا خود غرض ترین انسان سمجھوں گا اورپھر بشیر احمد شاکر صاحب نے پنجاب سوسائٹی میں چھوٹا سا تین مرلہ مکان لیا اور اس میں ایک کمرے میں اس علاقے کی ضرورت مند اور (معذور) خاص افراد کیلے درس گاہ بنائی اور پھرSpirit Foundationکے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور ایک مکمل انسان ہونے کا ثبوت دیا اور پھر اللہ کی سرزمین پہ ایسے افراد تلاش کرنے لگا جو اپنے جسمانی اعضاء میں نامکمل تھے کسی بیماری کا شکار ہوکر صحت جیسی نعمت سے محروم ہوچکے تھے، بصارت سے عاری تھے سن یا بول نہیں سکتے تھے اور آج الحمداللہ انکی فائونڈیشن کئی سالوں سے ایسے افراد کیلے عملاً ایسا کام کررہی ہے جو نہ صرف قابل تحسین ہے بلکہ بے مثل بھی ہے۔پھولوں کی سرزمین سے کانٹوں کی باڑ ہٹانا، سفر کی طوالت میں پانی کے مشکیزے پیش کرنا، بیماری لاعلاج میںا کسیر بننا، بہترین انسان ہونے کی نشانی ہے۔ 3دسمبر معذور کے عالمی دن کے حوالے سے سپرٹ فائونڈیشن ہمیشہ اپنے علاقے میںایک پروگرام منعقد کرتی ہے جہاں وہیل چیئرز ، ٹرائی سائیکل ، الیکٹرانک وہیل چیئر، وائٹ کین اور بہت سے تحائف ضرورت مند لوگوںمیںتقسیم کرتی ہے، نہ کوئی دکھاوا تھا نہ کوئی سیاست۔ اقبال کیمطابق وہاں ہر کوئی کردار کا غازی نظر آتا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسی تنظیمیں اور شخصیات اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں اسی میں مسلم ہینڈ فائونڈیشن بھی ایک اہم نام ہے۔
سپرٹ فائونڈیشن کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انکی چیئرپرسن نے چیف گیسٹ کسی بھی ڈونر یا مشہور معروف شخصیت کو نہیں بنایاہوتا بلکہ اکثر نابینا یا معذور (خاص)لوگوں کو یہ اعزاز بخشا ہوتاہے۔ اورجب ایک معذور ایک شخص کو جب زمین سے اٹھا کر ٹرائی سائیکل پر بٹھایا جاتاہے تو وہ آسمان کی طرف نگاہ بلند کرکے کہتاہے کہ تیرا شکر ہے مولا اب میں بھی عزت کی روٹی کماسکوں گا۔یہ جذبہ ان خاص افراد کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، بجائے اسکے کہ ہم چوراہوں پہ کھڑے ان فقیروں کے دست دراز پہ دس روپے خاموشی سے رکھ دیں کیوں نہ ہم میں سے ہر ایک قابل استطاعت خاندان ایک ایسے خاص (معذور) افراد کی ذمہ داری اٹھالے، روز کی دو پیالی چائے یا ایک میکڈونلڈ کا برگر ،دہی بھلوں کی ایک پلیٹ یا کیفے بار میں کافی کا ایک کپ ہم ان تمام اشیائے خوردنی کی قیمت ان خاص(معذور) افراد کیلئے جمع کرتے جائیں اور سپرٹ فائونڈیشن یا کسی بھی ایسے فرد کیلئے جس کو چھوٹا سا کاروبار شروع کراکے دے سکیں کیلئے مختص کردیں۔ ماڈرن لباس اور Brandsکی دلدادہ وہ خواتین جواصراف کرتی ہیں اگر وہ اپنے ایک لباس کی قیمت ہی ہر ماہ علیحدہ کرتی رہیں تو یقین کریں ایک سال میں بے شمار خاندان، بے شمار ضرورت مندوںا ورمختلف تنظیموںکے ضرورت مند خاص (معذور) افراد کو عزت کی زندگی اور خوشیوں بھری مسکان دے سکتی ہیں۔
اس وقت پچھلے عشرے میںپنجاب میں25 سندھ میں3.05، خیبرپختونخواہ میں21 بلوچستان میں 2.33 اور اسلام آباد میں1.00 لوگ معذور کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ اتنے اعداد وشمار کے باوجود ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا ان خاص افراد کیلئے جو زندگی کی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی ضروریات کیلئے کسی کے محتاج ہیں۔ کوئی ایسا کوٹہ رکھاگیا ہے جہاں انکو میڈیکل یا تعلیمی سہولت مل رہی ہوں؟ کیا روزگار میں ان کیلئے کوئی کوٹہ رکھاگیاہے، بینک میں ایسے افراد کے اکائونٹ کھلوانے کا کوئی انتظام کیاگیا ہے جہاں نابینا افراد یاجسمانی معذور کا شکار لوگ اپنا اکائونٹ کھول سکیں؟ کیا سڑکیں بناتے ہوئے ایسے افراد کیلئے علیحدہ جگہ اور مختلف جگہوں پر ان کیلئے پارکنگ کا کوٹہ ہے؟ کیا مستحقین کیلئے کوئی دیکھ بھال یا نگران رکھنے کا بندوبست کیا گیا ہے؟ پہلے بھی کچھ نہ کچھ معذور افراد کیلئے ہوتا رہا لیکن ان کی ضروریات کے مطابق ایک پالیسی بناکر اس پرعملدرآمد کروانا بہت ضروری ہے۔
85% مستحقین سہولیات سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کی نگاہیں دردمندوں اور اکابرین شہر کے انتظار میںد روازے پہ لگی ہوتی ہیں، بہت سے ایسے خاص (معذور) لوگ جو کسی بیماری کے باعث اپنے کسی اعضاء سے ہاتھ دھو بیٹھتے یا اعصابی کمزوری کا شکار ہوکر محتاج ہوگئے، وہ ذہنی طور پر کمال فطین لوگ ہوتے ہیں۔ انکی حسیات دوسرے لوگوں سے بڑھ جاتی ہیں اور وہ کسی بھی ایک فیلڈ میں جوہر کامل رکھتے ہیں، کیا حکومت وقت ایسے اداروں پہ نظر رکھے ہوئے ہے جو ان مستحقین کیلئے کام کررہے ہیں ان میں کتنی فائونڈیشن اور این جی اوز ایسی ہیں جو ان کا فائدہ اٹھاکر اپنی جیبیں گرم اور عیاشی کرنے پر لگادیتی ہیں ان پر خاص نظر رکھنا بہت ضروری ہے اور وہ فائونڈیشن جو خاص افراد کیلئے زندگی کی سہولیات مہیا کرتی ہیں ان کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے۔