حکومت اور اپوزیشن کے مابین ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹکرائو کی صورتِ حال پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ اِس ’’صورتِ حال‘‘ کا جائزہ لیں، تو پورا سیاسی ماحول ہی گرم اور گھمبیرنظر آتا ہے۔ کیا ہو گا؟ کیا ہونے والا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کی بازگشت آج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ اس پر تجزیے بھی ہو رہے ہیں اور تبصرے بھی۔ ٹی وی کی چھوٹی سکرین پر حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں اور نمائندوں کے درمیان ایک طوفانِ بدتمیزی بپا ہے۔ سب ادب و احترام کے دائرے سے باہر نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کرونا وائرس کی دوسری لہر کا بھی ہر طرف پڑائو ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کا گیارہ جماعتی اتحاد ’’پی ڈی ایم‘‘ سندھ، پشاور اور کوئٹہ میں جلسوں کے بعد پنجاب کا رخ کر چکا ہے اور اپنا سیاسی پاور شو دکھا رہا ہے۔ملتان میں اُس کا جلسہ ہو چکا ہے، اب لاہور کی تیاری ہے۔ یہ جلسہ 13دسمبر کو ہونے والا ہے۔ اگرچہ اس کے بعد کا کوئی اعلان پی ڈی ایم کی طرف سے نہیں کیا گیا لیکن اپوزیشن اتحاد کے ذرائع بتاتے ہیں کہ لاہور والے جلسے کے بعد جیسے ہی اس کے اختتام کا اعلان ہو گا، سٹیج سے یہ اعلان بھی کیا جائیگا کہ اب جلسہ کے حاضرین ایک بڑے لانگ مارچ اور دھرنے کیلئے اسلام آباد کا رُخ کرینگے۔ جہاں اُن کی آخری منزل ڈی چوک ہو گا۔
’لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں جب اسلام آباد کا رُخ یا گھیرائو کریں گی اور اسلام آباد بند کر دیا جائے گا تو مجموعی طور پر ملک کی سیاسی، انتظامی اور امن و امان کی صورتِ حال کیا ہو گی؟حکومت کو بھی یہ فکر لاحق ہے اور حکومتی اکابرین سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم کا اسلام آباد میں سیاسی شو ایک خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ وجہ اسکی یہ بتائی جا رہی ہے اور اس ’’وجہ‘‘ میں حقیقت بھی ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے کارکن اتنے متحد اور منظم ہیں کہ اپنی قیادت یعنی مولانا فضل الرحمن کی آواز پر نہ صرف بیک زبان لبیک کہیں گے، بلکہ انہیں جو حکم مولانا صاحب کی طرف سے دیا جائے گا وہ من و عن اُس پر عمل بھی کرینگے۔ اگرچہ دسمبر میں بہت زیادہ سردی ہوتی ہے۔ایک ماہ بعد جنوری بھی آنیوالا ہے جس میں سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہو جائیگا۔ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت بلاول بھٹو زرداری اور دیگر سیاسی قائدین نے بھی حکومت کو ہٹانے کی اس مہم کی تائید و حمایت کی ہے۔دوسری جانب حکومت نے بھی جارحانہ پالیسی اپنالی ہے۔ حکومتی ترجمان، اُسکے وزراء اور خود وزیراعظم بارہا اپوزیشن کو للکار چکے ہیں۔ وہ اپوزیشن سے کچھ شرائط کی بنیاد پر بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ایسا ’’ڈیڈ لاک‘‘ ہے جسے توڑنے کی اہم ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت ہٹ دھرمی چھوڑ کر پی ڈی ایم کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے۔ اگر حکومت ہی مذاکرات کی بات نہیں کرے گی تو حالات کو مزید خراب کرنے کی ذمہ داربھی وہی ہوگی۔ حکومت میں جو ہوتے ہیں وہ بڑا دل رکھتے ہیں۔ حکومت کو زیادہ لچک اور رواداری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ ہٹ دھرمی سے کام لے، اور اُسکے ترجمان اپنے بیانات سے خوامخواہ حالات کو خراب کرنے کی کوشش کریں تو معاملات میں زیادہ بگاڑ آئیگا۔ اس وقت دونوں جانب سے تحمل دکھانے کی ضرورت ہے۔ ملکی حالات اور معیشت ابھی اس قابل نہیں کہ ملک کسی ’’ٹکرائو‘‘ کا متحمل ہو سکے۔ بہرحال پہل حکومت کو ہی کرنا ہو گی۔ ترجمانوں کی فوج کو چھوڑ کر اگر وزیراعظم عمران خان اپوزیشن سے رابطے میں خود پہل کریں اور اُنکے ساتھ باوقار طریقے سے مل بیٹھنے کی بات کریں تو شاید کچھ آسانیاں پیدا ہو سکیں۔ اگر عمران خان اور اُنکے ساتھی ’’انا‘‘ کے خول سے باہر نہ نکلے، اپوزیشن کو مسلسل چیلنج کرتے رہے تو حکومت ہی نہیں ملک کو بھی بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔حکومت نے لاہور میں اپوزیشن کا ہونے والا پاور شو اگر بات چیت کے ذریعے روک لیا اور پی ڈی ایم کا جلسہ نہ ہونے دیا تو یہ اُس کی بڑی کامیابی ہو گی ورنہ لاہور کے جلسے کے بعد حالات کس طرف جائینگے ، ہم تجزیہ کار اس کا اچھی طرح ادراک رکھتے ہیں۔ اللہ نہ کرے معاملات کے حوالے سے جو تصور کیا جا رہا ہے ویسا ہی ہو۔ لاہور والے جلسے کے حاضرین اگر اسلام آباد کی طرف چل پڑے تو حکومت کیلئے ان کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔ اُس کا بروقت فیصلہ قوم کی قسمت کے فیصلے کو بہتر کر سکتا ہے۔ اب سارے معاملے کی چابی حکومت یعنی عمران خان کے پاس ہے۔ وہ آگے بڑھیں اور اِس چابی کا صحیح استعمال کریں۔اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38