چیف جسٹس کا سپریم کورٹ میں خواتین ججوں کے تقرر کا عندیہ
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ میں بھی جلد خواتین ججز کے تقرر کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ضلعی عدلیہ میں تین سو خواتین ججز فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں ویمن ججز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمات میں خواتین کی ضمانت میں نرمی کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول خواتین ججز بہت سارے مقدمات میں بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ ملازمتوں سے لے کر تعلیمی اداروں میں کوٹہ تک ہر جگہ صنفی امتیاز ہے۔ آئین خواتین کو خاص حقوق دیتا ہے۔ ہمیں ان کا تحفظ کرنا ہے۔ کانفرنس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس سردار محمد شمیم خاں نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ آج خواتین ہر میدان میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔
ہمارے ملک میں‘ جہاں مرد و خواتین کی تقریباً یکساں تعداد ہے ، بے شمار فیلڈز میں خواتین نے مردوں کے مقابل اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ خواتین کی عزت و توقیر کے تحفظ کی ضمانت توخود خالق کائنات خدا وند کریم نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں فراہم کی ہے جس کی سورۂ نساء میں خواتین کے حقوق و ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں خواتین کی عزت و توقیر اور معاشرے میں ان کی اہمیت کا سب سے زیادہ دین اسلام میں خیال کیا جاتا ہے جبکہ مغربی دنیا میں اس کے برعکس پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ امر کسی اعزاز سے کم نہیں کہ اسلام کی نشاۃِ ثاینہ کے احیاء کے لیے تشکیل پانے والے اس ملک خداداد میں مردوں کے شانہ بشانہ قومی سیاست، عدلیہ ، انتظامیہ اور طب و وکالت سمیت ہر شعبے میں خواتین کلیدی عہدوں پر فائز ہوتی رہی ہیں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ بیرونی دنیا میں ملک کا نام روشن کرتی رہی ہیں۔ اس تناظر میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خاں، محترمہ بے نظیر بھٹو اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا بے مثال سیاسی قیادت کے طور پر حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو تو قومی سیاسی پارٹی کی قائد بھی تھیں۔ اسی طرح شعبۂ وکالت میںرابعہ قاری کا نام سنہرے حروف میں لکھا ہوا ہے جو مارشل لاء کے خلاف سینہ سپر رہیں اور اس جدوجہد میں پولیس کی لاٹھیاں کھاتے ہوئے منصب شہادت پر سرفراز ہوئیں۔ ایسی ہی دلیرانہ خوبیوں کی مالک بیگم عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ بھی تھیں جنہوں نے سپریم کورٹ بار کے منصب تک وکلاء برادری کی بھرپور قیادت کی، آج وکلاء برادری میں خواتین کی کثیر تعداد عدل گستری کا حصہ ہے جبکہ پیشہ طب میں بھی خواتین ڈاکٹروں کی خدمات نمایاں ہیں۔ اسی طرح آج سول سروس میں بھی خواتین کمشنر ، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کے منصب تک اپنی بہترین صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہی پہنچ رہی ہیں۔ اگرچہ ابھی تک کوئی خاتون بطور جج سپریم کورٹ فائز نہیں ہوئی تاہم بلوچستان ہائیکورٹ سمیت ہائیکورٹوں میں خواتین ججز تعینات ہیں۔ قومی سیاست میں تو خواتین مردوں کے مدمقابل براہ راست انتخابات میں بھی منتخب ہو کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت کے لئے منتخب ہو رہی ہیں جو ہمارے ملک کی اس آدھی آبادی کا طرۂ امتیاز ہے۔ اب فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ میں بھی خواتین ججوں کے تقرر کا عندیہ دیا ہے تو خواتین اس اعلیٰ منصب کے تقاضے بھی بحسن و خوبی نبھائیں گی۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے بلاشبہ متعدد موثر قوانین موجود ہیں جن پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کی ضرورت ہے جس سے ونی‘ شوارہ اور قرآن سے شادی جیسی قبیح رسموں اور غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے جرائم کا تدارک ہو سکتا ہے۔ یقیناً اس کے لئے خواتین ججز قانون و انصاف کی عملداری کے لئے بہترین معاون ثابت ہوں گی۔