وزیراعظم کا گورنرہائوس لاہور کی دیواریں گرا کر جنگلا لگانے کا حکم
اس حکم میں کون کون سی مصلحتیں پوشیدہ ہیں یا حکمت و دانائی چھپی ہوئی ہے یہ تو وزیراعظم یا ان کے وزیر اور مشیر ہی بہتر جانتے ہوں گے، اگر جان کی امان ملے تو عرض ہے کہ یہ تو حکومت کے بچت پالیسی اور قومی پیسہ بچائو پروگرام کے سراسر خلاف عمل ہے۔ اول دیواریں گرانے پر پیسہ خرچ ہو گاپھر جنگلا بنانے اور اسے لگانے پر بھی پیسہ خرچ ہو گا یہ رقم اور کچھ نہیں تو لاکھوں میں ہو گی کیوں کہ گورنر ہائوس کوئی 5 مرلے کا لان نہیں کہ اس کے ارد گرد نمائشی یا فرمائشی جنگلا ہزاروں میں لگ جائے گا یہ تو بلاوجہ خزانے پر بوجھ ڈالنے والی بات ہے۔
بہتر ہی ہے کہ دیواریں اسی طرح رہنے دیں۔ سکیورٹی میں بھی آسانی رہے گی اور گورنر ہائوس ایک بہترین فیملی پارک کا نقشہ پیش کرتا رہے گا۔ ہر اتوار کو سینکڑوں فیملیاں یہاں تفریح کے لئے آتی ہیں۔ دیواریں نہ ہوں تو اردگرد اوباش اور لفنگے فیملیوں کو تنگ کرتے نظر آئیں گے اور پھر اتنی بڑی عمارت کی حفاظت بھی مسئلہ بنے گی۔ پوری پولیس کی یا رینجرز کی پلٹن یہاں تعینات کرنا پڑے گی۔ امید ہے حکومت اس تاریخی عمارت کا نقشہ بگاڑنے کی بجائے اس کی حفاظت یقینی بنائے گی تاکہ گورنر صاحب کی رہائش گاہ اور یہاں سیر کے لئے اتوار کو آنے والوں کی حفاظت بھی یقینی بنے۔ جنگلا لگانے پر جو خرچ ہونے ہیں انہیں کسی اور نیک کام پر لگائیں تاکہ عوام کا بھلا ہو۔
٭…٭…٭…٭
طالبات کی چھڑی سے پٹائی۔ ریحام خان نے ویڈیو جاری کردی
سب سے پہلے تو یہ معلوم کیا جائے کہ لڑکیوں کا یہ سکول ہے کہاں جہاں مرد استاد بچیوں کو پڑھا رہا ہے۔ زنانہ تعلیمی اداروں میں تو خواتین اساتذہ بچیوں کو پڑھاتی اور تختہ مشق بناتی ہیں، ایسی درجنوں ظالم استانیوں کے خلاف خبریں بھی شائع ہوتی رہی ہیں جو معصوم چھوٹی چھوٹی بچیوں پر وحشیانہ تشدد کرتی ہیں۔ اب معلوم نہیں ایسی ناگن مزاج استانیوں کے خلاف کوئی ایکشن بھی لیا گیا یا نہیں۔ ہمارے ہاں یہی برائی ہے کہ خبر چھپتی ہے۔ مگر ایکشن کوئی نہیں ہوتا۔ اب اس سکول کا معاملہ کچھ ہٹ کر ہے، اول تو مرد استاد لڑکیوں کو پڑھا رہا ہے، دوئم تصویر میں وہ چھڑی سے بچیوں کو مار رہا ہے۔ سوئم یہ کہ یہ ویڈیو ریحام خان نے سوشل میڈیا کو شیئر کی ہے۔ اب اس پر تو فوری ایکشن لازمی ہو گا۔ کیونکہ ریحام خان کی ہر خبر اور تصویر میڈیا سے لے کر حکمرانوں تک بھرپور اثر کرتی ہے۔ اب خدا کرے یہ ویڈیو بھی محکمہ تعلیم والوں کو خواب غفلت سے بیدار کرے۔ تصویر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی سرکاری سکول ہے جہاں بچیاں زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہی ہیں۔ اس بارے میں تو چلیں محکمہ کہہ سکتا ہے کہ سردی کی وجہ سے بچیاں دھوپ میں بیٹھ کر پڑھ رہی تھیں مگر سوال وہی ہے مرد استاد کا زنانہ تعلیمی ادارے میں پڑھانا اور بچیوں کو چھڑی سے مارنا اول تو معاملہ خطرناک‘ دوئم ریحام خان کا نام ہی کافی ہے۔ جنہوں نے محکمہ تعلیم سے کہا ہے کہ ایسے استادوں کی وجہ سے بچے اوربچیاں سکول چھوڑنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ویسے آج کل ’’پیار نہیں مار‘‘ کا نعرہ نجانے کہاں کھو گیا ہے۔
خاتون اول بشریٰ بی بی کا داتا دربار اور زیر تعمیر شیلٹر ہوم کا دورہ
یہ ہوتے ہیں کرنے کے کام۔ ضروری نہیں کہ شاہانہ جلوس کے ساتھ خاتون اول دنیاکو دکھائے کہ لو جی ہماری سواری آرہی ہے۔ پھر اعلیٰ درجے کی بیگمات کے ساتھ کسی تقریب میں دکھاوے کی تقریر کرے اور یہ جا وہ جا۔ خاتون اول بشریٰ بی بی نے پہلے بھی نہایت خاموشی کے ساتھ جس طرح فلاحی اداروں کا دورہ کیا اس کے اچھے اثرات عوام کے ذہنوں اور اداروں پر مرتب ہوئے ہیں۔ اب ایک بار پھر خاتون اول نے خاموشی سے وزیراعظم کی سرکاری تقریبات اور بیگمات کی نمائشی تقریبات سے کنارہ کرتے ہوئے بندگان خدا کی سہولت اور خدمت کے لئے زیر تعمیر شیلٹر ہوم کا دورہ کیا۔ یہ ان کی بندگان خدا سے محبت کا اظہار ہے۔ جس کے لئے کسی نمائشی دورے کی ضرورت انہوں نے محسوس نہیں کی اسی طرح انہوں نے لاہور کے روحانی حکمران کے پاس داتا دربار جاکر بھی حاضری دی۔ جس سے ان کی مقربان الہٰی سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ امید ہے وہ اسی عاجزی اور انکساری سے آئندہ بھی ایسے ہی فلاحی اداروں کا دورہ کرتی رہیں گی تاکہ ان کو بھی احساس ہو کہ حاکم وقت کی گھر والی یعنی خاتون اول ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس طرح ان اداروں کی کارکردگی بھی بہتر ہو گی اور وہاں پناہ لینے والے بھی سکون محسوس کریں گے۔ اور عوام کے دلوں میں خاتون اول کی عزت بڑھے گی۔
٭…٭…٭…٭
سکھر کے بعد صادق آباد میں پیپلزپارٹی کے جلسہ کی شاہی تیاریاں
ابھی سکھر میں پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس پر ہونے والے جلسہ کی شاہانہ دھاک کے چرچے عام تھے کہ اب صادق آباد میں بھی جلسہ کی تیاریوں کی چکا چوند نے کئی لوگوں کے ہوش اڑا دئیے ہیں۔ یہ وہ جماعت ہے جو غریبوں کے حقوق کی بات کرتے نہیں تھکتی مگر اب انہیں بھی غریبوں کے حقوق بابا اور بی بی کے نعروں کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتے۔ سکھر سندھ کا قدیم تاریخی شہر ہے جہاں سٹیڈیم کو 3 دن جلسے کے لئے بند کر کے دلہن کی طرح سجایا گیا۔ اس میں ہیلی پیڈ بنایا گیا صرف اسی پر بس نہیں ہیلی پیڈ سے سٹیج تک پارٹی کے قائدین کے لئے ریڈ کارپٹ بچھایا گیا تاکہ ان عظیم عوام دوست رہنماؤں کے جوتے گرد آلود نہ ہوں۔ حالانکہ ہزاروں کا مجمع اسی مٹی پر بیٹھ کر انہیں سنتا رہا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دھرتی ماں کے اصل بیٹے کون ہیں۔ اب صادق آباد میں پیپلزپارٹی کا زور ہے‘ جلسہ وہاں بھی زور دار ہو گا۔ بڑے بڑے نواب، جاگیردار دل کھول کر خرچہ کر رہے ہیں تاکہ قائدین کو خوش کر سکیں۔ جلسے کے بعد یا پہلے یہ تو وقت پر منحصر ہے۔ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے شاہی پکوان تیار ہو رہے ہیں ان مہمانوں کے لئے تیتر، بٹیر، ہرن، مچھلی، بکرے کی سجی کے ساتھ دیسی گھی میں بنا گاجر کا حلوہ، کھیر اور پیڑے والی لسی بھی تیار کی گئی ہے۔ عام پاکستانی کا تو یہ نام سن کر ہی منہ پانی سے بھر جاتا ہے یہ شاہی خوراک ان کے نصیب میں کہاں۔ یہ کھانا ان رہنماؤں کے لئے ہے جو دن رات غریبوں کا غم کھانے کی ایسی اداکاری کرتے ہیں کہ ان کے 10 روپے کی روٹی 15 روپے کا نان واہ رے عمران خان والے شعر سن کر خود غریبوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آجاتے ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024