ممنوعہ فنڈنگ کیس: صرف فیصلہ نہیں، کارروائی بھی ہونی چاہیے
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین رکنی بنچ نے پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف آٹھ سال سے چلنے والے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع سے عطیات اور فنڈز موصول ہوئے۔ فیصلے کے مطابق، پی ٹی آئی کے مجموعی طور پر 16 بے نامی اکاؤنٹس نکلے اور تقریباً ایک ارب روپے کی فنڈنگ کے ذرائع معلوم نہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے 34 انفرادی اور 351 غیر ملکی کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے فنڈز لیے۔ اس فیصلے کے سامنے آنے سے پہلے برطانیہ کے معروف جریدے فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پی ٹی آئی نے عارف نقوی کے ذریعے 2013ء میں تین حصوں میں 21 لاکھ 21 ہزار 500 ڈالرز کی رقم وصول کی جس کے ذرائع ظاہر نہیں کیے گئے۔ یہ مقدمہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی شق 6 کے تحت 14 نومبر 2014ء کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔ اس شق کے تحت غیر ملکی اداروں یا افراد سے فنڈنگ حاصل کرنے پر پابندی ہے اور ایسی فنڈنگ کو بحقِ سرکار ضبط کرلیا جائے گا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی نے 30 مرتبہ تاریخ ملتوی کرائی اور چھے بار کیس کے ناقابلِ سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرۂ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں جبکہ مقدمے کی پیروی کے لیے نو وکیل بدلے گئے۔ سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈز فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018ء میں سکروٹنی کمیٹی قائم کی جس کے 95 اجلاس ہوئے۔ پی ٹی آئی نے 24 بار اس کمیٹی کے اجلاس بھی ملتوی کرائے اور درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف بھی 4 درخواستیں دائر کیں۔ الیکشن کمیشن نے اگست 2020ء میں سکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رپورٹ نامکمل ہے ۔ سکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022ء کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی۔ سکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق سٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل کردہ 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیمز اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی۔ پارٹی کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈز موصول ہوئے۔سکروٹنی کمیٹی نے جب ان فنڈز کی تفصیلات مانگیں تو پی ٹی آئی نے اس کا کوئی واضح جواب نہیں دیا۔
یہ سب کچھ ایک ایسی سیاسی جماعت کی طرف سے کیا گیا جس کے نام میں انصاف کا لفظ شامل ہے اور جس کا سربراہ مسلسل اپنے سیاسی حریفوں کے کڑے احتساب کی بات کرتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی ایک افسوس ناک امر ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالتے ہوئے کسی بھی حد تک جانے کو جائز سمجھتے ہیں لیکن جب ان کی ذات پر بات کی جاتی ہے تو وہ ثبوت دینے کی بجائے طرح طرح کے جواز تراشنے لگتے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے معاملے میں انھوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس کا فیصلہ ہرگز نہ آئے۔ مسلسل آٹھ سال تک اس کیس کو لٹکائے رکھا گیا اور جب یہ بات سامنے آگئی کہ عارف نقوی نامی شخص سے جانتے بوجھتے فنڈز وصول کیے گئے ہیں تو اس پر بھی عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ تھوڑی سی منی لانڈرنگ پر بات بنا لی گئی ہے۔ یہ بھی بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ عمران خان حکومت میں آنے سے پہلے اپنے جلسوں میں برملا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ پاکستان رقوم بھیجنے کے لیے بینکنگ چینل کا استعمال نہ کریں بلکہ ہنڈی کے غیر قانونی ذریعے سے پیسہ بھیجیں۔
عمران خان ہوں یا کوئی بھی اور سیاسی لیڈر، قانون اور آئین سے ماورا کوئی بھی نہیں ہے اور پاکستان کا قیام اور استحکام کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کے وجود اور بقاء سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اپنے سیاسی یا گروہی مفادات کے لیے ملک کو نقصان پہنچانا کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ اپریل میں حکومت سے الگ ہونے کے بعد سے اب تک عمران خان اور ان کے ساتھی متعدد بار ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دے چکے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے وابستگان کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایسے ٹرینڈز بھی کئی مرتبہ چلائے گئے جن کا مقصد ملک کے اہم ترین اداروں اور افراد کی توہین کرنا اور ان کے کردار کو متنازع بنانا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر جن کی تقرری خود عمران خان کے ہاتھوں ہی عمل میں آئی تھی ان کے خلاف بھی پی ٹی آئی نے اب ایک محاذ کھڑا کررکھا ہے اور اس سلسلے میں دو صوبائی اسمبلیوں سے قراردادیں بھی منظور کرائی گئی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس اقدام کا ایک مقصد الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لا کر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ رکوانا تھا۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی نے 4 اگست کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر کے باہر چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کے لیے احتجاج کرنے کا بھی اعلان کررکھا ہے۔
پی ٹی آئی کی چیف الیکشن کمشنر کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے باوجود ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ منظرِ عام پر آچکا ہے جس نے بہت سی باتوں کی وضاحت کردی ہے۔ فیصلے کے منظرِ عام پر آنے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے جس طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود کو آئین اور قانون کا پابند نہیں سمجھتے اور اپنے لیے ہر ناجائز کام کو بھی جائز خیال کرتے ہیں۔ اس فیصلے کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تاکہ یہ تأثر زائل ہو کہ پی ٹی آئی کو ریاستی اداروں کی آشیرباد حاصل ہے جس کی وجہ سے اس پر آنچ بھی نہیں آسکتی۔ اس تأثر کا زائل ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے باعث بہت سے ایسے مسائل پیدا ہورہے ہیں جو نہ صرف سیاسی منظرنامے کو دھندلا کررہے ہیں بلکہ عوام کے دلوں میں بھی اس کی وجہ سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔