بدھ ، 4 محرم الحرام، 1444ھ، 3اگست 2022 ء

وزیر اعظم بلوچستان سیلاب متاثرین سے گھل مل گئے۔ بچے کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا حکم
وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ بلوچستان سے ان کا ایک اچھا امیج سامنے آ یا ہے۔ وہاں مسلم لیگ (نون) کے حوالے سے جو اجنبیت تھی وہ کم ہو رہی ہے۔ ان کی شخصیت کا وہ تاثر جو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب قائم ہوا تھا مزیدبہتر ہوا ہے۔ وہ جس طرح سیلاب متاثرین میں گھل مل گئے ان سے اپنائیت کا اظہار کیا۔ اس کا اچھا اثر ہوا ہے۔ غم کے مارے ویسے بھی پیار کے دو میٹھے بول کے محتاج ہوتے ہیں۔ بلوچستان والے تو ویسے ہی سخت موسم اور بے رحم حوادث کے عادی ہیں۔ کوئی ان سے ہنس کر دو بول کہہ لے تو وہ اس پر پیار نچھاور کرتے ہیں۔ شہباز شریف کی طرف سے سیلاب متاثرین کے کیمپوں کے دورے میں انہوں نے جس طرح لوگوں کی شکایات سنیں ان کے مسائل پوچھے اور فوری طور پر ان کی امداد کا اعلان کیا۔ وہ اپنی جگہ انہوں نے جس طرح بڑوں کے علاوہ بچوں سے خصوصی شفقت کا برتائو کیا اسے بھی سب نے سراہا ہے۔ ایک طالب علم بچے نے جس طرح وزیر اعظم کے سامنے کھل کر تعلیمی انحطاط کا ذکر کیا سرکاری سکولوں کی حالت بیان کی اس نے سب کو متاثر کیا۔ وزیر اعظم نے اس بچے کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا حکم دیا ۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ بلوچستان کا تعلیمی نظام اس قدر تباہ ہو چکا ہے کہ بچے بھی اب اس پر آواز بلند کر رہے ہیں۔ تھرڈ ڈویژن میٹرک پاس افراد کو جب ٹیچر بھرتی کیا جائے گا وہ کیا خاک پڑھائیں گے۔ سکولوں کی حالت بھی ابتر ہے۔ اساتذہ اور سکولوں کی حالت بہتر بنانا بہت ضروری ہے۔ خدا کرے صوبائی حکومت تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے بچوں اور بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی بیخ کنی کرے تو بات بنے گی۔ اس کے ساتھ تعلیم یافتہ اساتذہ کی قلت دور کی جائے۔ مفت تنخواہیں لینے والے غیر حاضر اساتذہ سے جان چھرائی جائے جو بہت ضروری ہے۔
٭٭٭٭
خیبر پی کے حکومت کا نسوار پر ٹیکسز میں کمی لانے کا فیصلہ
بھئی حد ہو گئی! جس صوبے میں آٹے کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ لوگ نان روٹی سے محروم ہو رہے ہیں وہاں کی بے خبر حکومت روزی روٹی کے مسائل حل کرنے کی بجائے نسوار مہنگا ہونے کے غم میں گھلی جا رہی ہے۔ اس نشہ آور پڑیا کی قیمت میں کمی کے لیے اس پر عائد ٹیکسوں میں کمی لا رہی ہے۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے۔ آٹا مہنگا ہونے سے اس وقت خیبر پی کے میں لوگ نان اور روٹی خریدنے کی سکت کھو رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ شاید خیبر پی کے حکومت نسوار سستی کر کے اس سبز پری کے شوقین افراد کو خوش کر کے ان کے ووٹوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے‘ ویسے بھی اس سبز پری نے کئی پیرہن بدلے ہیں۔ کہیں نسواری کلر میں ، کہیں برائون کلر میں کہیں، سادہ اور کہیں خوشبودار بھی دستیاب ہے۔ بس اس جدید دور میں نقصان یہ ہوا ہے کہ اس کی خوبصورت ثقافتی رنگ میںرچی بسی ڈبیا جس میں یہ پری ہنسی خوشی رہتی تھی اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بے ادب لوگ پلاسٹک کی تھیلی پر ربڑ چڑھا کر اسے جیب میں رکھتے ہیں۔ بھلا یہ سٹائل اس خوبصورت ڈبیا کا کیا خاک مقابلہ کرے گا۔ اب تو کہیں کہیں نسوار کی گولیاں بھی دستیاب ہیں۔ پہلے نسوار صرف خیبر پی کے اور بلوچستان میں مقبول عام تھی اب تو پنجاب اور سندھ میں بھی اس کو مقبولیت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ یہ پان اور سگریٹ کی نسبت بہت سستی ہے۔ پھر نسوار رکھنے والے اسے ٹشو پیپر میں لپیٹ کر بھی رکھ سکتے ہیں خوشبودار نسوار بھی آ چکی ہے جس سے اس کی بدبو اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔
٭٭٭٭
نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ منسوخ کر دیا
چین کے سخت ردعمل کے بعد تو ایسا ہونا ہی تھا۔ تائیوان متنازعہ علاقہ ہے۔ چین اس کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے جبکہ امریکہ اس کی علیحدہ شناخت کا حامی ہے۔ صرف حامی ہی نہیں، وہاں دل و جان اور مال و اسلحہ کے انبار لگا کر اس کی حمایت کرتا ہے۔ کاش ایسی ہی حمایت وہ کشمیریوں کی بھی کرتا اور ان کی علیحدہ شناخت اور حیثیت کو تسلیم کرتا تو 75 سالہ پرانا یہ مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا۔ دراصل امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کے تابع پالیسیاں لاتا ہے۔ جس طرح مشرقی وسطیٰ میں اسے عربوں کو قابو میں رکھنے کے لیے اسرائیل کی ضرورت ہے اسی طرح چین پر دبائو رکھنے کے لیے امریکہ تائیوان کی سرپرستی کر رہا جسے چین نے آگ سے کھیلنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے امریکہ کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ مگر امریکہ پنگا لینے سے باز نہیں آیا۔ گزشتہ دنوں چین کے صدر نے امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کے ایشیائی ممالک کے دورے پر جو سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس کے بعد امریکی غبارے میں ہوا نکل گئی اور اب نینسی پلوسی جن ممالک کا دورہ کریں گی ان میں سے تائیوان کو خارج کر دیا ہے۔ یہ ہوتا ہے بروقت ایکشن۔ ایک ہم ہیں کہ ابھی تک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے انٹرنیشنل گیمز ایونٹس اور اولمپکس مشعل کے گزارنے پر بھی کوئی سخت ردعمل نہ دے سکے۔ صرف سفارتی احتجاج کیا ہے۔ بھلا بھارت پر اس پرامن احتجاج کا کیا اثر ہو گا۔ اب بھی وقت ہے پاکستان ان تمام سپورٹس تنظیموں کو سخت مراسلہ بھیجے جو اس قسم کی تقریب میں شامل ہیں تو کم از کم حق ہی ادا سمجھا جائے گا۔
٭٭٭٭
فیصل آباد میں دو روز سے بھوکی معمر خاتون نے نہر میں چھلانگ لگا دی
تف ہے ایسی اولاد پر جو والدین کو بڑھاپے میں بے سہارا چھوڑ دیتی ہے۔ بے حس ہے وہ معاشرہ جہاں بزرگوں کو بھوک کی وجہ سے خودکشی کرنا پڑتی ہے۔ کہاں ہیں وہ محتاج گھر، فلاحی تنظیموں کے اڈے، حکومت کے طعام خانے اور اولڈ ہائوس جہاں ایسے لوگوں کو رکھ کر ہم کم از کم انہیں حرام موت سے تو بچا سکتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہر محلے میں مساجد ہیں کیا وہاں ایسے لوگوں کی مدد کی کوئی راہ نہیں نکالی جا سکتی ۔ کیا نمازی اڑوس پڑوس سے اتنے بے خبر ہو گئے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں کہ کس گھر میں کون بھوکا ہے۔ محتاج ہے تو افسوس ہے ہماری دین داری پر۔ اسلام میں تو افضل نیکی بھوکے کو کھانا کھلانے، پیاسے کو پانی پلانے اور بے لباس کو لباس پہنانے کو قرار دیا گیا ہے۔ اب سمندری روڈ پر گزشتہ روز جو دلفگار منظر دیکھا گیا ایک 60 برس کی معمر خاتون نے بھوک سے تنگ آ کر خودکشی کیلئے نہر میں چھلانگ لگائی تو اسے ریسکیو 1122 والوں نے اطلاع ملنے پر بچا لیا۔ مگر یہ کیا جب وہ ہوش میں آئی تو رونے لگی کہ اسے کیوں بچایا گیا کیوں مرنے نہیں دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ دو روز سے بھوکی ہے۔ اس کے کپڑے بھی پھٹے ہوتے تھے جس پر ریسکیو والوں نے اسے کپڑے دئیے کھانا کھلایا اور جوس پلایا۔ مگر اب اس کا کیا بنے گا وہ کہاں جائے گی۔ اس کے گھر والوں میں اگر اس کے جوان بیٹے یا بیٹی ہے تو ان کی ذرا خبر لیں جو اپنی ماں کی بھوک سے اتنے بے خبر تھے۔ قانون بھی یہی کہتا ہے اس کے وارثوں کو سزا دی جائے۔ دکھ کی بات ہے ایک ماں 5 بچوں کو پال سکتی ہے مگر پانچ بچے ایک ماں کو نہیں سنبھال سکتے۔
٭٭٭٭