کے پی کے سے ملحقہ افغان علاقوں میں چھپے ٹی ٹی پی کے دہشت گردکہاں گئے؟
افغانستان میں اشرف غنی حکومت جس طرح پاکستان دشمنی پر کمربستہ ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،یہاں تک کہ 16جولائی 2021کو ازبکستان میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران جب افغان صدر اشرف غنی نے افغان طالبان کی اشرف غنی حکومت کے خلاف کامیاب پیش رفت اور افغانستان کے تمام دیگر مسائل کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی تو وزیراعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں افغان صدر اشرف غنی کے الزامات پر مایوسی کا اظہار کیا اور اشرف غنی کو یاد دلایا کہ کس طرح آج بھی پاکستان 30لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا۔ مگر بھارت کی زبان بولنے والے اشرف غنی کو افغان عوام کیلئے پاکستان کی قربانیوں سے کوئی غرض نہیں۔ اسے غصہ اس بات کا ہے کہ اس کے غیر حقیقی اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے۔ حالانکہ 2019میں منعقد ہونیو الے صدارتی انتخابات میں مذاق کی حد تک صرف 9فیصد پڑنے والے ووٹوں کی بنیاد پر برسراقتدار آنے والے اشرف غنی اور اس کے شریک اقتدار عبداللہ عبداللہ کو احساس ہونا چاہیے تھا کہ انہیں 91فیصد افغان عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہے۔ انہیں اقتدار میں آنے سے انکار کردینا چاہیے تھا ، لیکن اس طرح کا انکار افغانستان پر ناجائز قابض امریکہ کو قبول نہیں تھا۔ نہ ہی واشنگٹن کو افغان عوام کے حقوق اور جمہوری اقدار سے کوئی غرض تھی۔ امریکہ کے افغانستان پر تسلط قائم رکھنے کیلئے کابل میں کٹھ پتلی افغان حکومت کا قیام ضروری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بطور صدر حلف اٹھانے کے بعد جب میڈیا کانفرنس میں ایک صحافی نے صرف 9فیصد پڑنے والے ووٹوں پر سوال اٹھایا تو صدر اشرف غنی کا کہنا تھا’’ افغان طالبان کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہو کر افغان عوام ووٹ ڈالنے کیلئے باہر نہیں نکلے ورنہ اسے افغان عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے‘‘۔
نو منتخب صدر اشرف غنی کے اس جواب پر پنڈال میںموجود تقریباً تمام لوگ مسکرا دیے، اس مسکراہٹ میں بھی سوال پوشیدہ تھا کہ ڈیڑھ لاکھ نیٹو وامریکی افواج کی موجودگی کے باوجود اگر افغان طالبان کے خوف کا یہ عالم ہے تو حکومت کس طرح اپنے فرائض پر انجام دے پائے گی،پھر وہی ہوا اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت دارالحکومت کابل کے علاوہ دیگر چند شہروں تک محدود ہوکر رہ گئی ۔ بھارت اور اس کے خفیہ ادارے افغان حکومت پر 2004 سے کنٹرول حاصل کر چکے تھے لیکن یہ کنٹرول NDS، وزارت داخلہ اور کسی حدتک افغان نیشنل آرمی پر بھی موجود تھا۔ اس کنٹرول میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن بھارت کے خفیہ ادارے 2019کے بعد افغان حکومت کی تمام وزارتوں پر حاوی ہوتے چلے گئے ۔ پاکستان دشمن دہشت گرد تنظیموں کے علاوہ افغان نیشنل آرمی نے بھی سرحد پار سے پاک فوج کی چوکیوں اور خاردار باڑ کی تنصیب میںمصروف پاکستانی جوانوں پر حملے شروع کردیئے پاکستان کے احتجاج پر اس طرح کے حملوں کا تدارک کرنے کی بجائے اشرف غنی حکومت نے الٹا پاکستان پر الزام تراشی سے جان چھڑائی یا پھر یہ کہہ کر اپنی مجبوری ظاہر کردی کہ پاکستان سرحد سے ملحقہ ان کے سرحدی علاقے افغان نیشنل آرمی کے کنٹرول میں نہیں۔ حالانکہ یہ جھوٹ تھا تاہم پاکستان نے صبر کا مظاہرہ کیا البتہ اپنی حدود میں حفاظتی اقدامات بڑھادیے گئے۔
اور پھر وہ وقت بھی آیا جب امریکہ اپنی افواج لے کر 20برس تک بے مقصد لڑی جانے والی جنگ میں شکست کا تاج سر پر سجھائے افغانستان سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگیا کہ وہ ستمبر 2001 میں نیویارک میں دہشت گردی کے مرتکب اسامہ کو کیفر کردار تک پہنچانے اور اس کی جماعت القاعدہ کے خاتمہ کیلئے افغانستان آئے تھے اور ان کا یہ مقصد پورا ہوگیا ۔لہذا اب افغانستان میں امن و امان کا قیام اشرف غنی حکومت و افغان طالبان سمیت افغان عوام کی ذمہ داری ہے ۔ امریکیوں کے نکلتے ہی افغان طالبان نے کابل کے طول وعرض میں افغان نیشنل آرمی کے اہم مراکز پر حملے تیز کرنے کے علاوہ افغانستان سے ملحقہ تمام ہمسایہ ریاستوں کے خارجی و داخلی راستوں کو قبضہ میں لینا شروع کردیا اشرف غنی اور اس کی حکومت میں شامل اہم شخصیات کا تو صرف اقتدار دائو پر لگاہوا ہے ۔ ایسا اقتدار جو انہیں پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا تھا۔ ان سے کہیں زیادہ پریشانی بھارت کو ہے جو افغان طالبان کی شکل میں افغانستان میں اپنے پاکستان کی طرف خلاف سازشی کردار کوختم ہوتا دیکھ رہا ہے۔ اس کی افغانستان میں کی گئی تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب رہی ہے ۔ لیکن بھارت کو اس سے کہیں زیادہ صدمہ پاکستان کے صوبہ کے پی کے و قبائلی علاقوں سے ملحقہ افغان صوبوں کنڑ ،ننگر ہار، پکتیکاکے ان سرحدی علاقوںپر افغان طالبان کے تیزی سے ہوتے ہوئے قبضے پر ہے ۔ جہاں اس نے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار، حرکت الاحرار، لشکر جھنگوی اور داعش والوں کو ہزاروں کے تعداد میں محفوظ ٹھکانے فراہم کر رکھے تھے۔ اگست 2019میں بھارت نے ان تمام دہشت گرد جماعتوں کو متحدہوکر پاکستان میں دہشت گردی کے لیے راضی کیا تھا۔ اور ان کے درمیان ایک تحریرمعاہدہ بھی کرایا گیا تھا جس پر عملدآمد کیلئے تمام دہشت گرد جماعتوں کی قیادت نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف بھی اٹھایاتھا۔ بھارت نے اس اتحاد اور معاہدہ کیلئے 10ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی تھی اور اب ان علاقوں پر افغان طالبان کے قبضہ کی وجہ سے بھارت کو اپنے تمام منصوبے زمین بوس ہوتے نظر آرہے ہیں۔
مودی حکومت اپنے ووٹروں اور دیگر پاکستان دشمنوں کو دھوکہ دینے کیلئے اس حقیقت کو چھپائے رکھنا چاہتی تھی کہ افغان طالبان ان علاقوں پر تیزی سے قابض ہوتے جارہے ہیں جہاں بھارت نے پاکستان میں خون کی ہولی کھیلنے والے دہشت گردوں کو پہلے حامد کرزئی اور اب اشرف غنی کے تعاون سے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی تھیںلیکن 26جولائی 2011کو چترال کے ارندو سیکٹر کے پار سرحد پر تعینات افغان فوج پر افغان طالبان نے حملہ کیا تو جان بچانے کیلئے انہوںنے پاکستان سے داخلے کی اجازت مانگ لی، جوانہیں فراہم کردی گئی۔ پاکستان میں داخل ہونے والے افغان فوج کے کمانڈر و پانچ افسران سمیت 46 اہلکاروں کو پاکستان میں طبی امدادکے علاوہ انہیںہر طرح کی سہولت فراہم کی گئی ۔ انہیں دوسرے روز ضروری کاغذی کاروائی کے بعد افغان حکام کے حوالے کردیا گیا ۔ آئی ایس پی آر نے اس پوری کاروائی کو فلم کی شکل میں عکس بند کیا تاکہ افغان مہمانوں کی واپسی کے بعدافغان حکومت منکر نہ ہوجائے ،لیکن اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد عالمی مبصرین سوال اٹھارہے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور اس کے ساتھ اتحاد کرنے والی دیگر چاردہشت گرد تنظیموں کی قیادت اور ان کے ساتھ موجود ہزاروں دہشت گرد اس وقت کہاں ہیں؟ بھارت اور این ڈی ایس والے انہیں کہیں دوسری جگہ منتقل کر چکے ہیں؟ انہیں افغان نیشنل آرمی کی یونیفارم پہناکر افغان طالبان کے ساتھ لڑایاجارہا ہے یا وہ افغان طالبان کے قبضے میں ہیں؟ خطے میں ان کیلئے امن سوالوں کا جواب ضروری ہے۔