کمسن کلیوں کا قتلِ عام
باہر کے ممالک سے جو خبریں آتی ہیں۔ اُن میں کامیابی، خوشی، امید اور زندگی کی نوید ہو تی ہے مثلاََ امریکہ میں خاتون کی لاٹری پر 80 ارب روپے کا انعام نکل آیا۔ امریکی باسکٹ بال کھلاڑی نے تھرپارکرمیں پانی کی قلت پر سولر وا ٹر پلانٹ تحفے میں دیدیا۔ سری لنکا میں کنویں کی کُھدا ئی کے دوران نیلم پتھروں کا 15ارب مالیت کا ذخیرہ دریا فت ہوا ہے۔ برطا نوی وزیراعظم بو رس جانسن کے ہاں 65برس کی عمر میں دوسرے بچے کی ولادت ہو نے والی ہے۔ امریکی صدر نے امریکیوں کی صحت روزگار اور سلامتی کیلئے نئے قوانین متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمنی کی چا نسلر انجیلا مرکل نے تعلیم و تحقیق کیلئے 20 گنا زا ئد مرا عا ت دیں ہیں۔ اسرا ئیل نے اپنے بچوں کی صحت و تعلیم کیلئے نئے پیمانوں پر کام شروع کر دیا ہے۔ با ہر کے ممالک میں ہمیشہ عوام کی بہبود اور کا میابی کیلئے نئی نئی حو صلہ افزاء خبریں اور کام کیے جا تے ہیں جبکہ ہما رے ہاں یہ خبریں روز کا معمول ہیں کہ آج پٹرول مہنگا ہو گیا۔ آٹا چینی گھی بجلی پانی گیس کے نرغ بڑھا دیے گئے ہیں۔ ہر ہفتے قیمتوں میں اضا فہ کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن نے حکومت کی ناکامی، مہنگائی اور غلط پا لیسیوں پر احتجاج کیا۔ سڑکیں بلاک کیں۔ مارکٹائی، گا لم گلوچ کی۔ روزانہ کی بنیاد پر یہ خبریں آتی ہیں کہ ٹریفک حا دثات میں سو سے ڈیڑھ سو افراد مر گئے۔ تین سو افراد روزانہ زخمی ہو تے ہیں۔ ڈیڑھ درجن افراد کی خودکشیوں کی روز خبریں ہوتی ہیں۔ قتل و غا رت کے وا قعا ت ملک بھر میں دو درجن سے زا ئد ہو تے ہیں۔ دو درجن افراد کو اغواء کر لیا جاتا ہے اور تقریباََ ہر روز نصف درجن سے زا ئد چھتیں گرنے سے ہلاک ہو جا تے ہیں۔ بیسوں افراد روزانہ ڈا کٹروں کی غفلت، کوتاہی اور کم علمی کی وجہ سے نا حق موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ نا جائز تعلقا ت کے شبہ میں ہر روز ڈیڑھ درجن لو گ قتل کر دئیے جاتے ہیں۔ سیلاب کے ریلے، دریا میں ڈوبنے اور نہروں میں چھلانگ لگا کر مرنے وا لوں کی تعداد بھی ملک بھر میں ڈیڑھ درجن روزانہ ہے۔ پاکستان میں آگ لگنے، کرنٹ لگنے، دہشت گردی کی وجہ سے، ایکسیڈینٹ ہو نے، زہریلا کھانا کھانے، گیس لیک ہو نے، چولہا یا سلنڈر پھٹنے، عمارتوں سے گرنے اور دشمنی میں گولی مارنے یا چھری کلہاڑے سے مارے جانے وا لوں کی تعداد بھی لگ بھگ چار درجن روزانہ ہوتی ہے مگر ان تمام ہو لناک خبروں اور شرمناک اموات میں سے سب سے کر یہہ اور بھیانک موت اُن بچوں کی ہیں جو دو سال سے دس سال کی عمر کے ہو تے ہیں۔ ہر روز نصف درجن اموات کی خبریں کلیجہ پھاڑ کر رکھ دیتی ہیں پاکستان میں یہ وا قعات سب سے زیادہ پنجاب اور سندھ میں ہوتے ہیں۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ان واقعات کا نصف بھی نہیں ہو تا مگر پنجاب میں یہ شرح انتہا سے زیادہ ہے۔ دو سال کی بچی سے لیکر 80سال کی بڑھیا تک کو ئی محفوظ نہیں۔اس طرح تو درندے بھی نہیں کرتے۔ کیا کبھی کسی نے شیر کو چڑیا کا بچہ کھاتے دیکھا ہے۔ کبھی ہا تھی کو خرگوش کا شکا ر کرتے دیکھا ہے یا اونٹ کو میمنا کھاتے دیکھا ہے۔ کیا کبھی شیر نے چوہا، چھپکلی، چھچھوندر، کتا بندر کھاتے دیکھا ہے۔ لیکن انسان اتنا موذی جانور ہے کہ وہ ایسی معصوم کلیوں کو بے رحمی سے نوچ کر پھینک دیتا ہے جنھوں نے چمن میں ابھی آنکھ ہی کھو لی ہو تی ہے۔ یہ خبریں پڑھ کر انسا ن کا دل کتنا مجروح کتنا زخمی ہو جا تا ہے کہ کسی دو ڈھائی سال کے بچی کو کسی درندے نے بھنبھوڑ ڈا لا ہو۔ چار چھ آٹھ سال کی نرم و نازک، نا سمجھ اور معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی ایک ایسا سفا کانہ فعل ہے۔ ان واقعات کا سب سے بڑا مرکز قصور ہے۔ جہاں ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک چھ سالہ بچی کے ساتھ محلے کے لڑکے نے بد فعلی کی اور پھر اُسے سفا کی سے مار ڈالا۔ بعد میں نماز جنازہ میں شریک ہو ا اور اُس کے قا تل کو ڈھونڈھنے وا لوں میں بھی شامل رہا۔ دو دن قبل لا ہور میں تین عورتوں، ایک بچی اور ایک بچے سے زیا دتی کی گئی۔ شفیق آباد کی بچی کی عمر سات سال بھی نہیں تھی۔ لاہو ر میں سوتیلے بھائی نے 14سالہ سو تیلی بہن کو زیا دتی کا نشا نہ بنا یا اور کئی دن تک یہ مذموم کھیل جا ری رکھا مگر نہ ا ٓسمان پھٹا نہ زمین۔رشتوں کا تقدس لُٹ گیا۔ چند دن پہلے ایک پندرہ سا لہ لڑکی کے ساتھ چھ سات ماہ بہمیانہ درندگی کا سلوک کیا گیا جسے سُن کررونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں۔ ڈھائی سال کی بچی کو تو ڈھنگ سے بو لنا بھی نہیں آتا۔ 80سال کی عورت تو قبر کی خوراک ہو تی ہے۔ ان جنسی مریضوں نے عمروں، رشتوں، جنسوں کا بھی خیا ل نہیں رکھا۔ پا گل عو رتوں تک کو نہیں بخشا۔ بچیوں کے ساتھ چھوٹے لڑکوں کے ساتھ بھی یہ غلیظ اور مکروہ فعل ادا کرنا عا م ہو گیا ہے۔ خوا جہ سرا ئوں کو نہیں بخشتے۔ ہر روز یہ گھنا ئونا کھیل کھیلا جا تا ہے۔ اس میں کمی کے بجا ئے زیادتی ہو تی جا رہی ہے۔ ایسے مرد جو معا شرے میں نجا ست اور گنا ہ پھیلا رہے ہیں۔ معصوم بچیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ انھیں سر عام پھا نسی کی سزا ملنی چا ہیے تا کہ حوا کی بیٹیاں امن اور سکون سے جی سکیں۔ حکومتِ پاکستان کو اس حوا لے سے سخت اقدا مات کرنے چا ہئیں۔