میں نے پاکستان بنتے دیکھا
خالد لطیف، ریٹائرڈ سینئر ہیڈ ماسٹر، شور کوٹ شہر
ہندوستان میں تحریک آزادی کی تقسیم کی تحریک زوروں پر تھی۔ہندوستان خاص طور پر مشرقی پنجاب کے مسلمانوں میں بے چینی اور سراسیمگی بدرجہ اتم موجود تھی۔ والد صاحب کا اسم گرامی محمد عبداللہ تھا۔ وہ ایک نامور طبیب کے طور پر جانے جاتے تھے۔ہمارا گائوں سکھ آبادی کی اکثریت پر مشتمل تھا۔ مسلمان آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ میری والدہ محترمہ مرحومہ نے میرے اور میری دو بہنوں کے ساتھ اپنا آبائی گائوں چھوڑنے کا بتایا کہ ۔لوگ جب قافلوں کی شکل میں نقل مکانی کر رہے تھے۔ سکھ غنڈے مسلمان قافلوں پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔اسی دوران ہم والد محترم سے بچھڑ گئے۔یہ میری والدہ کیلئے جانکاہ لمحہ تھا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ وہ مجھے اپنی گود میں اٹھاکر اور دونوں بہنوں کو انگلی پکڑا کر۔مصیبتیں جھیلنے کے بعد ہم ضلع فیصل آباد (لائلپور) موجودہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گائوں289/ج ب چندو بڈالہ پہنچے۔میری والدہ محترمہ (مرحومہ) مرتے دم تک 5-10-1981ان دکھوں کا ذکر کرتی رہیں۔ اپنے شہید اعزاو اقربا کا ذکر کرتے ہوئے انکی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں۔اللہ تعالیٰ قادر و کریم ہے جس نے ہمیں دو خوشیاں عطا کیں ایک پاکستان کی اور دوسری بچھڑے ہوئے باپ کا دوماہ بعد معجزانہ طور پر مل جانا۔ میں ذرا اور بڑا ہوا تو میں نے اپنی والدہ محترمہ سے استفسار کرنا شروع کر دیا کہ میری دائیں پسلیوں کے نیچے زخم کا نشان کیسے بنا؟ تو ماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ یہ زخم اس وقت ہوا تھا جب ہم اپنے گھر سے نکل کر انجانے راستوں پر سفر کر رہے تھے۔ جس گائوں میں آپکے والد کے ایک سکھ دوست رہتے ہیں۔اس نے بادل نخواستہ اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی اور پھر روکھی سوکھی روٹی بھی کھلائی اور صحن میں چار پائی بچھا دی۔ اس کا بیٹا بڑا متعصب تھا۔ اس نے دور سے مجھ پر برچھی کا وار کیا جو میرے ہاتھ کو چیرتی ہوئی آپ کے (میرے) پیٹ میں دھنس گئی۔ خوش قسمتی سے مہاجر کیمپ میں طبی امداد مل گئی اور اللہ نے مجھے شفا دی، میری ماں نے سکھ کا سانس لیا۔
واقعی آزادی کی قدر انہیںہی ہوتی ہے جنہوں نے غلامی دیکھی ہو۔ جن کی آنکھیں ہوتی ہیں انہیں آنکھوں کی کیا قدر کسی نابینا سے توپوچھیں کہ بینائی کتنی بڑی نعمت خداوندی ہے جنہوں نے غلامی نہیں دیکھی وہ کیا جانیں کہ آزادی کسے کہتے ہیں ہم ہرسال اگست میں بڑی دھوم دھڑلے سے جشن آزادی مناتے ہیں اچھی بات ہے یہی زندہ اقوام کا شیوہ اور دستور ہوتا ہے لیکن ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس آزادی کے حصول کے لئے ہمارے آبائواجداد نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں جن کی بدولت آج ہم آزاد پاکستانی ہیں اور ناچتے جھومتے آزادی کے ترانے گاتے پھرتے ہیں لاکھوں قربانیاں دے کر پاکستان بنانے والو! آج ہم سب آپ کو لاکھوں کروڑوں سلام پیش کرتے ہیں اور ساتھ سلیوٹ بھی۔