تبدیلی کبھی نچلی سطح سے نہیں آیا کرتی
پنجاب میں کپاس کی کاشت کا حکومتی ٹارگٹ42 لاکھ ایکڑ تھا ۔اس مرتبہ اللہ کا کچھ ایسا فضل ہوا اور جب نیتیں نیک ہوں تو فضل و کرم کی بارش ہو ہی جایا کرتی ہے ۔ ابھی کپاس کی پہلی فصل مارکیٹ میں آئی ہے اور جو کاشتکار کو سپرے کیے بغیر اچھی فصل مل رہی ہے اس سے تقریباً 38 ارب روپیہ جو پیسٹی سائیڈز امپورٹرز ، ڈسٹری بیوٹرز کی جیبوں اوراس سے متعلقہ دیگر مدوں پر خرچ ہونا تھا وہ براہِ راست بچ کر کسان کی جیب میں جا چکا ہے اور یہ 38 ارب روپے کپاس کے کاشتکار کی آغاز ہی میں بچت ہے۔ کہتے ہیں جب اللہ نے اصلاح اور مدد کرنی ہو تو ایسے لوگ بھیج دیتا ہے جو مددگار ثابت ہوتے ہیں اور جب اللہ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو ان پر احمق مسلّط ہوجاتے ہیں ۔اس مرتبہ جنوبی پنجاب جو حقیقی کاٹن بیلٹ ہے ، میں محکمہ زراعت کا ایک ایسا سربراہ تعینات ہوا جونان ٹیکنیکل ہونے کے باوجود محض خلوصِ نیت کی برکت سے جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع میں محکمہ زراعت کے فیلڈ افسر کے طور پرکام کرتا رہا اوراس دوران گریڈ اکیس کیلئے اس کی پرموشن کی ٹریننگ کے آرڈر آگئے مگر اس نے یہ لکھ کر اعلیٰ حکام کو بھیج دیا کہ اس سال وہ گریڈ اکیس کے ٹریننگ کورس کیلئے چھٹی نہیں لے سکتے کیونکہ کپاس کی فصل پر میں نے بہت زیادہ محنت کی ہے اور میرے چھٹی پر جانے سے وہ ساری محنت ضائع ہوجائے گی اس لئے اگلی مرتبہ ٹریننگ کورس پر جاؤں گا اور اس کی درخواست منظور ہوگئی ۔
سیکرٹری زراعت جنوبی پنجاب ثاقب علی عطیل کی گریڈ اکیس کی قربانی رنگ لے آئی۔ انہوں نے اس مرتبہ اتنے بھرپور انداز میں مہم چلائی ،اور کاشتکار کو قائل کیا کہ صدیوں سے کپاس پر سپرے کیے جانے والے کوڑ تمے ، تمباکو، آک ، نیم کے پتے اور ہینگ کے آزمودہ محلول کا سپرے کیا جائے تو کسان دوست کیڑے نہیں مرتے بلکہ کسان دشمن کیڑوں کاخاتمہ ہوجاتا ہے اس کا باقاعدہ فارمولا بتایا گیا کہ یہ محلول کیسے تیار کرکے سپرے کرنا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کی ریسرچ اس پر موجود ہے مگر پیسٹی سائیڈز مافیا اتنا مضبوط ہے کہ جس طرح ایلو پیتھک مافیا نے دنیا بھر میں پرانے طریقۂ علاج کو نہ صرف ختم کروادیا بلکہ اس کا استعمال بھی گناہ سمجھا جانے لگا۔ زراعت کے شعبے میں بھی وہی حربے استعمال ہوئے۔ یہی تو وہ دجالی قوتیں ہیں جنہوں نے پورے نظام کوجکڑ رکھا ہے اور ان کا اصل ہتھیار ہی پروپیگنڈہ ہے۔ اس مرتبہ کپاس کے تیس سے چالیس فیصد کاشتکاروں نے پیسٹی سائیڈز کی بجائے کوڑ تمے والے محلول کو استعمال کیا اور کپاس کی فصل کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا کافی حد تک صفایا کردیا ۔ محکمہ زراعت کا آ ئی پی ایم فارمولا لاگو کیا گیا اور بیشتر علاقوں میں کاشتکار کو قائل کرکے 50 دن تک کپاس کی فصل پر کسی بھی قسم کا سپرے نہیں ہونے دیا گیا جو 25 دن کی فصل پر ہی شروع ہوجایا کرتا تھا ۔اس طرح کپاس دوست کیڑے بچ گئے اور کپاس کی فصل کئی سال بعد اس خطے کے صدیوں سے جاری روایتی طریقوں کا استعمال کیا گیا جو پیسٹی سائیڈ کمپنیوں کی پراپیگنڈہ مہم کی وجہ سے متروک ہوگیا تھا۔
اس تمام صورتحا ل کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ کئی سال بلکہ دہائیوں بعد کاشتکار کا خوف ختم ہوگیا کہ پیسٹی سائیڈ کمپنیوں نے اسی خوف کی توآبیاری کی تھی اور کپاس کے کاشتکار کا یقین اس بات پر اتنا پختہ کردیا تھا کہ جب تک وہ چھ سے لیکر اٹھارہ تک سپرے نہیں کریں گے انہیں ہر حال میں نقصان ہی ہوگا۔ جب کاشتکار اس خوف سے باہر نکلا تو اس نے پیسٹی سائیڈ کمپنیوں پر تکیہ کرنے کی بجائے قدرت پر تکیہ کیا اور جا بجا مفت میں موجود قدرتی ادویات کا استعمال کیا تو قدرت بھی کاشتکار پر مہربان ہوگئی اورقدرت نے کئی سال بعد کپاس کی فصل کیلئے سب سے بڑا ٹانک جسے ’’ دکھن‘‘ کہتے ہیں کی ہوا چلا دی کہ جس ہوا نے کبھی بھی کپاس دشمن کیڑے کو پودے پر ٹکنے نہیں دیا۔
کیا مسلمان کا اس بات پر یقین نہیں کہ اللہ تعالی نے کوئی ایسا مرض پیدا نہیں کیا جس کا علاج پہلے سے موجود نہ ہواور یہ بات قرآن مجید میں بھی بارہا فرمائی گئی کہ ’’غور وفکر کرو۔ ‘‘یہ غور وفکر ریسرچ ہی تو ہے کونسی ایسی زمین ہے جہاں آک کا پودا بغیر کسی بیج اور آبیاری کے بغیر اُگا نہیں ہوا، سارا تھلاور نہروں کے کنارے کوڑ تمے کی بیلوں سے بھرے پڑے ہیں اور اس کی بھی کوئی کاشت نہیں کرتا گویا علاج تو اللہ نے مفت رکھا ہوا ہے۔ خوف کی آبیاری نے ہمیں کبھی قدرتی علاج کی طرف راغب ہی نہیں ہونے دیا اور یہی تو دجالی نظام ہے جس سے نبی پاکﷺ نے پناہ مانگی تھی۔بے شک چناؤ اللہ ہی کرتا ہے اور جس طرح کپاس کیلئے اللہ تعالی نے ایک مرد حُر اور مردِ قلندر کا چناؤ کیا ۔ اسی رب العالمین سے التجا ہے کہ پاکستان کے دیگرتمام شعبوں میں بھی کوئی نہ کوئی مخلص ، بے لوث ، محبِّ وطن اور اپنی اولاد پر قوم کے بچّوں کو ترجیح دینے والا تعینات فرما دے تو پھر خیر ہی خیر ہے کہ تبدیلی کبھی نیچے سے نہیں آتی بلکہ اُوپر سے آتی ہے اورکم ازکم کپاس کی ایک فصل کے حوالے سے یہ تبدیلی نظر آنے لگ گئی ہے ۔
نوٹ: کوڑ تما، نیم کا درخت اور آک بھی قدرت کے انمول تحفے ہیں ۔ میرے ایک جاننے والے کی اہلیہ کو شوگر کے زخم کیوجہ سے ٹانگ کاٹنے کامشورہ دیا گیا۔اس نے تہجد کی نماز میں گڑ گڑا کر اللہ سے مدد مانگی اور اللہ نے کسی ذریعے سے اس کی رہنمائی فرما ئی ۔ اس خاتون نے اپنا علاج خود کیا اور آج کئی سال بعد بھی وہ چل پھررہی ہے ۔ علاج کچھ اس طرح سے ہے ۔ نیم کے درخت اور آک کے پودے کی کونپلیں لے کر تلوں کے تیل میں اچھی طرح جلا کر سیاہ کرلیں اور پھر اس مکسچر کو گرائنڈ کر کے محفوظ کرلیں ۔ تلوں کے تیل کا خالص ہونا شرط ہے۔ شوگر کے زخموں پر اس تیل کے استعمال سے نہ صرف زخم بھر جاتے ہیں بلکہ نئی جلد بھی آنا شروع ہوجاتی ہے ۔ اگر پاکستان میں ریسرچ کے ادارے ادویات ساز اداروں کے تسلط سے باہر نکل آئیں تواس پر بھی ریسرچ کرلیں ۔