2 اگست 1858 ء سے 2021ء
آج 2 اگست ہے۔ ہم جو تاریخ پڑھتے اور اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اس میں اس دن کا ذکر نہیں ملتا حالانکہ یہ دن ہماری تاریخ کے اہم ترین (شاید بد ترین بھی) اور ہمیشہ یاد رکھے جانے والے دنوں میں سے ایک ہے۔ 1858 میں اس روز برطانیہ کی پالیمنٹ میں ’’ گورنمٹ آف انڈیا ایکٹ‘‘ پاس ہوا تھا اور قانونی طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کر کے بر صغیر کی حکومت ’’ تاج برطانیہ‘‘ نے سنبھال لی تھی۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ ہم باقاعدہ طور پر غلام بن گئے تھے، اور اسکے بعدیہ ایکٹ تقسیم ہند تک ہم پر لاگو رہا۔ قیام پاکستان کے وقت اس نظام کا خاتمہ ہو جانا چاہئیے تھا کیونکہ ہم نے بہت جد و جہد کے بعد اس نظام سے ’’آزادی‘‘ حاصل کی تھی۔ لیکن ہماری بد قسمتی کہ نہ تو نظام بدلا اور نہ ہمیں حقیقی آزادی ملی۔ صرف حکمرانوں کے چہرے بدلے، نظام اور طرز حکومت وہی رہا۔
اس قانون میں جہاں اور بہت سی چیزیں تھیں، جیسے یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام اثاثے تاج برطانیہ کی ملکیت میں دے دیے گئے اس کے ساتھ ساتھ تاج برطانیہ کو اپنی صوابدید پر برصغیر کے گورنر جنرل کی تقرری کا اختیار بھی ملا وہاں اس ایکٹ یا قانون میں ایک اہم شق یہ بھی تھی کہ اس قانون کے تحت برصغیر میں ’’ انڈین سول سروس‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ ’’ سیکرٹری آف سٹیٹ‘‘ کے کنٹرول میں تھی۔ اس وقت کہا گیا کہ یہ سول سروس وہ ’’فولادی فریم ورک‘‘ ہو گا جس کے ذریعہ بر صغیر پر تاج برطانیہ کی حکومت قائم رہے گی۔ یعنی در حقیقت ’’انڈین سول سروس‘‘ کا مقصد برصغیر کے 250 اضلاع اور ان میں بسنے والے دو سو ملین غلاموں کو قابو میں رکھنا تھا۔ اس وقت سیکٹری آف سٹیٹ برطانوی پارلیمنٹ کا کوئی ممبر ، اور باقی ایک ہزار کے قریب ممبرانِ سول سروس برطانوی شہری ہوتے تھے۔ آنے والی دہائیوں میں تھوڑے بہت بھارتی شہری بھی اس ’’ حکمران ٹولے‘‘ میں شامل کئے گئے۔آزادی کے وقت ، یعنی 1947 میں انڈین سول سروس میں 322 افسران بھارتی جبکہ 688 برطانوی شہری تھے۔
آزادی کے وقت بھارتی سول سروس کا بھی بٹوارا ہوا۔ اور اسکے بطن سے ’’ سول سروسز آف انڈیا‘‘ ا ور ’’ سول سروسز آف پاکستان‘‘ (CSP) نے جنم لیا جو بعد میں ’’ سنٹرل سپئیریر سروسز آف پاکستان‘‘ یعنی (CSSP) کہلائی۔آزادی کے وقت انگریز تو چلے گئے لیکن انکا بنایا ہوا نظام ہم نے اسی طرح اپنا لیا ، یہ بھول کر کہ یہ نظام بنانے والوں نے اسے معاشرے کو تعمیر کرنے کے لیے نہیں بلکہ عوام کو قابو میں رکھنے اور ان پر اپنی حکومت قائم رکھنے کی غرض سے بنایا تھا۔ نام اور چہروں کی تبدیلی کے ساتھ حکمرانی کا یہ نظام آج بھی قائم ہے۔ حالانکہ انگریز کی بنائی گئی انڈین سروس کا نظام نہ تو ’’ انڈین‘‘ تھا، نہ ’’ سول‘‘ اور نہ ہی اسکا مقصد معاشرے کو کسی قسم کی تعمیری ’’ سروس‘‘ دینا تھا۔
اس وقت اٹھارہ سے تیئس برس کے جو انگریز برصغیر میں غلاموں پر حکومت کے مزے لینا چاہتے تھے، وہ انڈین سول سروس کا امتحان دیتے تھے۔ ان کے پاس امتحان پاس کرنے کے تین مواقع ہوتے تھے۔ جو لوگ امتحان میں کامیابی حاصل کرتے تھے انہیں ایک سے دو برس کی ٹریننگ کے بعد مختلف محکموں میں تعینات کر دیا جاتا تھا۔ عمومی طور پر انکی واحد ’’ مہارت‘‘ یہ ہوتی تھی کہ یہ حکمران ہوتے تھے اس لیے انکے محکمے انکی مرضی یا تاج برطانیہ کی ضرورت کے مطابق تبدیل بھی ہو سکتے تھے۔انکے سینیارٹی کے حساب سے مختلف عہدے جیسے کہ سیکرٹری ٹو دی گورنمٹ، جوائنٹ سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری، انڈر سیکرٹری وغیرہ ہوتے تھے،۔ اس کے علاوہ شہری حکومت میں چیف کمشنر، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر وغیرہ۔ انگریز سے آزادی کے بعد بھی یہی سب نظام ہمیں آج بھی اسی طرح برقرار نظر آتا ہے۔انگریز نے جو نظام بر صغیر کے غلاموں کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا تھا اسے اب ہمارا طاقتور طبقہ ہمیں کنٹرول کرنے (غلام رکھنے) کے لیے استعمال کر رہا ہے۔صرف نام تبدیل ہوئے ہیں کام نہیں۔انگریز کی جگہ ہمارے حاکم طبقے نے لے لی ہے۔ عوام اس وقت بھی غلام تھی آج بھی غلام ہے۔ اور ’’ سول بیورو کریسی‘‘ آج بھی وہ ’’ فولادی فریم ورک‘‘ ہے جس کے ذریعے سے ہمارا حکمران طبقہ ہم پر حکومت کرتا ہے۔ انکی واحد مہارت یہ ہے کہ یہ حکمرانی کے لیے بنے ہیں۔ اس لیے باوجود اس بات کے کہ آج تمام دنیا ’’ سپیشلائزشن‘‘ کی جانب جا رہی ہے ، انکے مختلف ’’مینجمنٹ کورس‘‘ تو ہوتے ہیں لیکن انہیںکسی مہارت یا کسی قسم کی مخصوص ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک افسر جو دو برس سے محکمہ آب پاشی میں خدمات انجام دے رہا ہو، اسے اچانک محکمہ تعلیم میں تعینات کر دیا جائے تو وہ ’’ ماہر تعلیم ‘‘ بن جاتا ہے۔ سال دو سال بعد ہو سکتا ہے کہ اسے محکمہ صحت کا چارج مل جائے، تو وہ کسی مخصوص تربیت کے بنا ہی صحت سے متعلق تمام چیزوں کا ماہر بن جائے گا۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا نعرہ ’’ تبدیلی‘‘ تھا اور ہے۔ ضروری ہے کہ یہ حکومت 163 برس پرانے اس نظام میں ضرور حقیقی اور تعمیری تبدیلیاں لائے ، تاکہ ’’ گڈ گورننس‘‘ کے نعرے کو کچھ نہ کچھ عملی شکل مل سکے۔ اچھی گورننس کا مطلب ایسے اداروں کا قیام ہے جو عوام کے روز مرہ معاملا ت اور ضروریات کی دیکھ بھال کریں، عوام کے حقوق کا خیال رکھیں اور ہمارے وسائل کا درست استعمال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیںکہ ہر شہری کو اسکے تمام حقوق میرٹ پر ، بلا تردد اور فوری ملیں۔ ایسے اداروں کے قیام اور موجودہ اداروں کی کارگردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پرانے قوانین اور طریقہ کار کو ختم کر کے جدید اور شفاف طریقے اپنائے جائیں۔