مسلم لیگ(ن) کا آنے والا کل
جن لوگوں نے پاکستان بنایا‘ اس کیلئے قربانیاں دیں‘ خاک اور خون کے دریا سے گزرے‘ ان کے سان وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ انکی مسلم لیگ پارٹی کے حصے بخرے ہوجائیں گے۔ تقسیم کے وقت دو ہی بڑی پارٹیاں تھیں انڈین نیشنل کانگرس اور مسلم لیگ‘ اُمت مسلمہ کا تشخص‘ انکی شناخت‘ اس کی امنگوں‘ آرزوئوں اور ارادوں کا محور ومرکز! کانگرس تو جڑی رہی لیکن ہم سے ایسا نہ ہوسکا۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہوکہ وہاں ہم جیسے Knight Errant (مہم جو) پیدا نہیں ہوئے۔ بہت عرصہ پہلے رئیس امرہوی نے ایک قطعہ لکھا جس کا اطلاق آج بھی ہوتا ہے۔
؎سیاسی پارٹیوں میں ٹھن رہی ہے
وزارت پر وزارت بن رہی ہے
اسے تم انجمن سازی نہ سمجھو
یہ مسلم لیگ بچے جن رہی ہے
چونکہ یہ نام بڑا تھا اس لیے ہر ایرے غیرے نے اس کو اپنا کر اپنا قد کاٹھ اونچا کرنے کی کوشش کی۔۔۔!
اس وقت بھی وطن عزیز میں کئی لیگیں بنیں جو نہ صرف متحارب پارٹیوں سے گھتم گُتھا ہو رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بھی برسر پیکار ہیں۔ ان میں قابل ذکر اور بڑی جماعت نواز لیگ ہے۔ جب وزیراعظم محمدخان جونیجو معتوب ہوا اور ضیاء الحق نے اسے نکال باہر کیا‘ میاں نوازشریف نے بھی روایتی مشرقی محبوب کی طرح آنکھیں پھیر لیں۔ جب ان کی مسلم لیگ پر قبضہ نہ کرسکے تو انہوں نے اپنے نام سے (ن)لیگ کھڑی کرلی۔ یہ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔
اس وقت سے لیکر آج تک پارٹی اور اس کی قیادت پر کافی نشیب وفراز آئے، کئی بار اُبھری کئی بار ڈوبی۔ ہماری 73سالہ تاریخ میں میاں صاحب وہ واحد لیڈر ہیں جو تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے اور اتنی دفعہ اپنے برادر خورد کو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوایا۔ اس طرح میاں نوازشریف نے نہ صرف ریکارڈ کھڑا کیا بلکہ فارسی زبان کے اس محاورے کو فتح کر دیا جس میں کہا گیا تھا ’’برادر خورد مباش‘‘ یہ ایک اعتبار سے ’’ورلڈ ریکارڈ‘‘ بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ Consectively اس منصب جلیلہ پر فائز رہے ہوں لیکن ڈوبنے کے بعد ابھرنا ہر کس وناکس کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔
ایک اور اعتبار سے بھی میاں صاحب منفرد رہے ہیں۔ انہوں نے کوئی مدت بھی پوری نہ کی۔ اپنی لا ابالی طبیعت یا مجبوری حالات کے تحت فارغ کر دیئے گئے۔ جب تک وزیراعلیٰ رہے محترمہ بے نظیر کے ساتھ آنکھ مچولی چلتی رہی لیکن بابے غلام اسحاق کے ساتھ مخاصمت مہنگی پڑ گئی۔ اس میں کچھ دوش گرگِ باراں دیدہ کا بھی تھا۔ وہ اپنے خطوط کے ذریعے وزیراعظم کی اس طرح سرزنش کرتا تھا جس طرح پرائمری سکول کا مدرس بچوں کو جھڑکتا ہے۔ میاں صاحب جاتے جاتے اس کو بھی لے ڈوبے۔ ضمیر جعفری کے الفاظ میں ’’تیری کرنیلی بھی گئی میری کپتانی بھی گئی‘‘۔
دوسری دفعہ آرمی چیف جنرل مشرف سے سینگ پھنسا بیٹھے، نتیجتاً وزارت عظمیٰ کے ساتھ آزادی بھی سلب ہوگئی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹکرائو ناگزیر تھا کیونکہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔My Head On Your Head والی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ جو لوگ تاریخ کا تھوڑا بہت ادراک رکھتے ہیں اور معروضی حالات سے آگاہ ہیں انہیں علم ہونا چاہیے کہ تلوار صرف ایک تھی اور سر بھی واحد تھا۔
تیسری بار کو Freak of History کہا جاسکتا ہے جس کا اردو ترجمہ ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ پانامہ لیگ میں سینکڑوں لوگوں کے نام تھے انہیں چیف جسٹس کو خط لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ بس خاموش رہتے۔ جس جائیداد کا انکشاف کیا گیا تھا وہ تو ایک کھلا راز تھا۔ لوگوں کو نہ صرف اس کا علم تھا بلکہ کاسہ لیس وہاں جاکر انکی چوکھٹ پر سجدہ ریز بھی ہوتے تھے۔ رازدار رقیب کیسے بنتے ہیں۔ احسان فراموشی کس چیز کا نام ہے۔ آنکھیں ماتھے پر کب رکھی جاتی ہیں۔ ان باتوں کا اندازہ انہیں بخوبی ہوگیا ہوگا‘ ہونا بھی چاہیے! کیونکہ وقت کی ان راہوں پر کبھی ان کا کارواں بھی گزرا تھا۔ جونیجو‘ ضیاء الحق، کیا اسے مکافاتِ عمل کہا جاسکتا ہے؟
باایں ہمہ میاں صاحب پر کئی اعتبار سے قسمت کی دیوی مہربان رہی ہے۔گو میاں شریف نے سخت محنت کی لیکن اس کا ثمر انہیں نصیب ہوا۔ یہ چاندی کا چمچ منہ میں لیکر پیدا ہوئے۔ کسی تاجر کا سیاست میں آنا اور کامیاب ہونا بھی ایک معجزہ تھا۔ ان سے پہلے جتنے کارخانہ داروں نے اس کوچے میں قدم رکھنے کی کوشش کی ناکام ہوئے۔ سہگلوں کا شمار ملک کے ممتاز بزنس مینوں میں ہوتا تھا‘ انہوں نے مقدور بھر کوشش کی لیکن اسمبلی کے ممبر تک نہ بن سکے۔ دیگران نے بھی یہ بھاری پتھر چوم کر رکھ دیا۔ ایں سعادت بزور بازو نیست! جس دن سے جنرل جیلانی نے انہیں وزیرخزانہ بنایا انہوں نے تو مُڑ کر نہ دیکھا‘ ترقی کا ہر زینہ مرحلہ وار طے کرتے گئے۔ عوامی سطح پر بھی مقبول ہوتے گئے۔ دراصل انہیں عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا گُر آگیا تھا۔ ویسے بھی تیس سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری)