’’صوبۂ کشمیر‘‘ کیلئے بھڑکتی چنگاری
لگتا ہے کہ کشمیر کو صوبے کا درجہ دینے کی دبائی گئی چنگاری کو کہیں سے پھر ہوا کا جھونکا حاصل ہوگیا ہے اس لئے گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کیلئے 26ویں آئینی ترمیم کے بل کا مسودہ وزیراعظم عمران خان کو پیش کرکے اسکی قومی اسمبلی سے منظوری کیلئے لابنگ شروع کر دی گئی ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے حالیہ انتخابات کی مہم کے دوران مسلم لیگ (ن) کی قیادت شدومد کے ساتھ یہ الزام لگاتی رہی کہ حکمران پی ٹی آئی نے آزاد کشمیر کو صوبے کا درجہ دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے جس سے کشمیر پر ہمارا دیرینہ اصولی موقف غارت ہو جائیگا۔ اس الزام کی بوجھاڑ میں عمران خان انتخابی جلسے کیلئے آزاد کشمیر گئے تو انہوں نے اس بات سے لاعلمی کا اظہار کیا کہ کشمیر کو صوبہ بنانے کی بات کس نے کی ہے۔ گویا یہ بات ہوئی ہے مگر وزیراعظم صاحب کو اس کا علم نہیں ہے۔ پھر انہوں نے آزاد کشمیر میں مرحلہ وار دو ریفرنڈم کرانے کا عندیہ دیا تو یہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کو غارت کرنے کے معاملہ میں ’’موراوور‘‘ نظرآیا۔ آزاد کشمیر میں ریفرنڈم کی بات اس لئے بھی غیرمنطقی تھی کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں صرف آزاد کشمیر میں ریفرنڈم کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ پھر دوسرے مرحلہ کے مجوزہ ریفرنڈم میں کشمیریوں کو یہ آپشن دینا بھی کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کو غارت کرنے کے مترادف ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا اپنی الگ آزاد ریاست بنانی ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ یہ آپشن پاکستان کے ساتھ الحاق کی تڑپ رکھنے اور اس کیلئے اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرنیوالے کشمیریوں کو پاکستان سے دھکیلنے کے مترادف ہے۔
اب دبی چنگاری کو بھڑکا کر گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کیلئے 26 ویںآئینی ترمیم منظور کرانے کی ٹھانی جارہی ہے تو حضور! کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ بے شک کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا ہی اٹل فیصلہ کر رکھا ہے جو درحقیقت پاکستان کی تکمیل کا فیصلہ ہے مگر کشمیر پر اٹوٹ انگ والی بھارتی ہٹ دھرمی کے مقابل ہمارا یہی اصولی موقف ہے کہ کشمیریوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے جس کا سلامتی کونسل نے استصواب کی بنیاد پر انہیں حق دیا ہے۔ ہم اپنے اس موقف کے تحت ہی بھارتی ہٹ دھرمی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے آئے ہیں اور مقبوضہ وادی کو دو حصوں میں تقسیم کرکے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنانے کے مودی سرکار کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کیخلاف عالمی برادری اور نمائندہ عالمی اداروں نے ہمارے اصولی موقف کی بنیاد پر ہی یکجہت ہو کر مودی سرکار سے احتجاج کیا اور مقبوضہ وادی کی پانچ اگست سے پہلے والی آئینی حیثیت بحال کرنے کا تقاضا کیا۔
عالمی برادری تو اب بھی اپنے اس تقاضے پر قائم ہے اور بھارت سے تسلسل کے ساتھ کشمیریوں کو یواین قراردادوں کی روشنی میں حق خودارادیت دینے کا کہا جا رہا ہے مگر ہم ہیں کہ اپنے اصولی موقف کی لُٹیا ڈبونے کا طے کئے بیٹھے ہیں۔ بے شک گلگت بلتستان بھی اسی طرح وادیٔ کشمیر کا حصہ ہے جیسے بھارت کی ہڑپ کردہ مقبوضہ وادی پوری ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ اگر ہم بھی بھارت کی طرح کشمیر کے ایک علاقے کو صوبے کا درجہ دیکر ازخود پاکستان میں ضم کرلیتے ہیں تو ہمارے اور بھارتی اقدام میں کیا فرق رہا۔ کشمیریوں کی 73 سال سے جاری صبرآزما جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کی یہی تو عالمی سازش ہے کہ بھارت کے ناجائز زیرقبضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا دیا جائے جس کا پوری ڈھٹائی کے ساتھ اہتمام کر بھی لیا گیا ہے اور اسی طرح پاکستان سے ملحقہ کشمیر کے علاقوں کو پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے آزادی کی بنسری۔ تو جناب! قوم یہ ضرور جاننا چاہے گی کہ کشمیر کو صوبائی درجہ دینے کی سوچ کہیں پاکستان سے الحاق کی تڑپ رکھنے والے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والی عالمی سازش ہی کا حصہ تو نہیں۔ یہ الگ بات کہ بھارت صرف اپنے ہڑپ کئے گئے کشمیر کے علاقے پر ہی اکتفا کئے رکھتا ہے یا اسکے توسیع پسندانہ عزائم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی شب خون مارنے کے جنون پر اٹکے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ پی ٹی آئی حکومت آرمی چیف کے منصب میں توسیع کی طرح کشمیر کو صوبہ بنانے سے متعلق 26ویں آئینی ترمیم بھی پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر یا دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کرانے کی پوزیشن میں ہے بھی یا نہیں اور یہ الگ بات کہ گلگت بلتستان کو آئین کی دفعہ 239 کے تحت پاکستان کے نئے صوبے کا درجہ دینے کیلئے اسکی کون سی صوبائی اسمبلی سے تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ منظوری حاصل کی جائیگی کیونکہ گلگت بلتستان تو صوبہ خیبر پی کے میں ضم کئے گئے فاٹا کا بھی کبھی حصہ نہیں رہا۔ یہ علاقہ بہرصورت کشمیر کا حصہ ہے جس پر آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے بھی مہرتصدیق ثبت کر رکھی ہے تو اسے صوبائی سٹیٹس دیکر پاکستان کا حصہ بنانا درحقیقت بھارت کو کشمیر کے حوالے سے اپنی ڈھٹائی پر عالمی برادری میں سرخرو ہونے کا نادر موقع فراہم کرنا ہے جبکہ ہمارے اس اقدام کے بعد جنونی بھارت کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر اپنا کلیم داغنے کی سہولت بھی مل جائیگی۔ وہ پہلے ہی اسی بنیاد پر امریکہ کو قائل کرکے پاکستان چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی سازش کر چکا ہے کہ یہ کشمیر کے متنازعہ علاقے گلگت بلتستان سے گزر رہی ہے۔ اگر ہمارے ایسے کسی عاجلانہ فیصلے کی بنیاد پر بھارت کیلئے سی پیک کو اپریشنل ہونے سے عالمی دبائو کے تحت روکنے کا جواز نکل آیا اور کشمیر کے اندر سے پاکستان آنیوالے دریائوں کا پانی مکمل طور پر روکنے کا بھارت کو نادر موقع مل گیا تو حضور! مودی کی اس گیدڑ بھبکی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سہولت کار کون ٹھہرے گا کہ ہم پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کرکے اس کا جینا حرام کر دیں گے۔ اگر آپ کشمیریوں کی بے مثال جدوجہد آزادی کا سفر بھی کھوٹا کرنا چاہتے ہیں اور بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے اسے راہداری بھی فراہم کرنے کا سوچ رہے ہیں تو پھر ملک کی سلامتی کا معاملہ خدا کے حوالے ۔