کشمیریوں اور اقلیتوں کے لیے بھارت کا مکروہ چہرہ
بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370ختم کرکے ایک طرح سے اپنے لئے قبر کھود لی ہے اور اپنی چتاکیلئے الائو بھڑکا لیا ہے ۔ آرٹیکل 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت کا درجہ حاصل تھا۔ دلی سرکار اس کے امور میں زیادہ مداخلت کی مجاز نہیں تھی ۔ کشمیر کی یہ حیثیت اس وقت سے چلی آرہی ہے جب سے انگریزوں نے ہندومہاراجہ کے ہاتھوں کشمیر فروخت کیا تھا۔ انگریز سرکار نے بھی ہمیشہ کشمیر کی خودمختاری کا احترام کیا ،مگر نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت نے اپنے ہی آئین کو ذبح کرڈالا۔اس سے کشمیر کی حیثیت تو متاثر ہوئی اور اسے تین حصوں میں بانٹ دیا گیا ،لیکن کشمیر پر بھارت نے جو کلہاڑا چلادیا ہے ،اس کی وجہ سے بھارت کی 11مزید ریاستوں کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370اور اس کی 11ذیلی شقیں جو انہیں خصوصی حیثیت دیتی ہیں،انہیں بھی کشمیر والا ڈرامہ رچاکر کہیں ختم نہ کردیا جائے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت درج ذیل گیارہ ریاستوں کو خصوصی درجہ حاصل ہے :
1۔گجرات‘ 2۔آندھراپردیش‘ 3۔کرناٹکا‘ 4۔میزورام‘ 5۔سکم‘ 6۔ناگالینڈ‘ 7۔تامل ناڈو‘ 8۔گوا‘ 9۔مہاراشٹرا‘ 10۔آسام‘ 11۔گورکھالینڈ
ان ریاستوں میں تشویش کی ایک انتہائی شدید لہر دوڑ چکی ہے کہ نریندر مودی کا سامراج نہ جانے کب ان کے حقوق بھی سلب کرنے کیلئے آجائے ۔ ان میں سے کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں آزادی اور علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور یہ تحریکیں بھارت کیلئے دردِ سر بن گئی ہیں۔
ان گیارہ ریاستوں کی تشویش سے توجہ ہٹانے کیلئے امریکی وزیرخارجہ تک متحرک ہوچکے ہیں اور انہو ں نے تبت کے نمائندوں سے ملاقات کرکے ایک نئی شرارت کھڑی کردی ہے ۔ دنیا مئی میں یہ تماشا دیکھ چکی ہے کہ لداخ کے محاذ پر کنگفو چاقوئوں سے کس طرح بھارتی فوجیوں کی لاشوں کا ڈھیر لگایاجاچکا ہے ۔ بھارت ابھی تک اس شکست کا داغ نہیں مٹا سکا۔ اس نے امریکہ کی مدد سے چین کے اقلیتی مسلمانوں کو ابھارنا شروع کردیا ہے ۔لیکن اس محاذ پر امریکہ اور بھارت کو ناکامی کا سامنا کرناپڑا۔ حال ہی میں طالبان کے ایک وفد نے چینی حکومت سے مذاکرات کئے ہیں ۔طالبان نے اپنے میزبانوں کویقین دلایا کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ چین کی مسلمان اقلیت کے حقوق کیلئے آواز بلند کریں۔طالبان نے چینی حکومت کو باور کروایا ہے کہ اقلیتوں سے نبٹنا چین کا داخلی مسئلہ ہے اور اس میں وہ کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔ دوسری طرف تامل ناڈو، منی پور،میزورام،سکم،آسام اور گورکھا لینڈ میں برسوں سے آزادی اور علیحدگی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ بجائے اس کے کہ بھارتی حکومت اپنے ان داخلی مسائل کو حل کرتی اور علیحدگی پسندوں کیساتھ مذاکرات کرکے کوئی حل نکالتی،اس نے الٹا شہریت کا ایک قانون نافذ کردیا ہے جس کی رو سے وہ کسی بھی بھارتی باشندے کی شہریت چھین سکتی ہے ۔ بھارت نے جن لوگوں کی شہریت چھینی ،انہیں یا تو کیمپوں میں بند کردیا گیاہے یا سرحد پار دھکیل دیا گیا ہے ۔ بھارت سمجھتا ہے کہ وہ اپنی جنگی مشینری کی طاقت سے ان تحریکوں کو دباسکتاہے ،لیکن یہ اس کی بڑی بھول ہے ۔
آزادی کی تحریکیں نہ ایک رات میں جنم لیتی ہیں، نہ راتوں رات ختم کی جاسکتی ہیں۔ کشمیر میں شہادتوں کی تاریخ ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہندومہاراجہ نے کشمیریوںکے جذبہ آزادی کو دبانے کیلئے جبرواستبداد کا ہرراستہ اختیار کیا،تقسیم ہند کے بعد بھارت نے جموں و کشمیر کو ہتھیالیاتوآزادی کی تحریک میں بھی تیزی آگئی۔ بھارت نے مقبول بٹ کو پھانسی دیکر شہید کیا ،سید علی گیلانی ،شبیر شاہ، یاسین ملک کو برسوں سے قید و بند کی صعوبتوں کا شکار کررکھا ہے ،اس نے نوجوان کشمیری حریت پسند برہان وانی کو بے دردی سے شہید کیا، اس کی نعش کو سری نگر کے گلی کوچوں میں گھمایا گیا، لیکن جب اس کا جنازہ اٹھا تو ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان اس کے جذبہ حریت کو سلامی دینے پہنچ گئے۔
الغرض بھارت اپنی بے پناہ فوجی قوت کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبانے میں بری طرح ناکام رہا ہے ۔کیونکہ کشمیری مردوزن اپنے آزادی کے ہیروزکے پیدا کردہ جذبوں سے سرشار ہیں۔ بوڑھا علی گیلانی ان کے دلوں میں آزادی کی تڑپ کو زندہ رکھتا ہے ،تو نوجوان برہان وانی قربانی کی ایک لازوال مثال اور زندہ وجاوید علامت بن چکا ہے ۔ 5اگست کے لاک ڈائون کے بعد بھارت کے پٹھو اور پالتو کشمیری قائدین کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں،شیخ عبداللہ کی اولادفاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ بھارت کی نافذکردہ پالیسیوں کیخلاف سراپا احتجاج بنے بیٹھے ہیں۔ غلام نبی آزاد راجیہ سبھا کا رکن تو ہے ، مگر اسے کشمیری عوام سے رابطے کا حق نہیں دیا جاتا۔ محبوبہ مفتی تو کھل کر کہتی ہیں کہ کشمیر میںامن لانا ہے تو پاکستان سے بات چیت کا عمل شروع کیا جائے۔ بھارت نے کشمیریوں کے حقوق کو جس بری طرح پامال کیا ہے ، اس پر کشمیر کی اجتماعی قیادت بھارت کیخلاف چیخ وپکار کررہی ہے ۔
مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بھارت کے ارادے نیک نہیں ہیں۔ وہ لاک ڈائون اور کرفیو کی پابندیاں ختم کرنے پر مائل نظر نہیں آتا۔ چند ہفتے قبل اس نے کشمیر پر جو آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی ، اس کے اصل مقاصد تو ابھی سامنے نہیں آئے ۔ لیکن تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت نے کشمیری قیادت میں دراڑڈالنے کی کوشش کی ۔ کیونکہ اس نے ا س کانفرنس میں حریت کانفرنس کے لیڈروں کو مدعو نہیں کیا۔بھارت نے ایک لحاظ سے اپنے پٹھوکشمیری لیڈروں کولالچ دیا ہے کہ وہ وادی میں الیکشن لڑنے کی تیاری کریں،یہ الیکشن ابھی ہوگا یا نہیں، اس کے بارے میں بھی ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ لیکن الیکشن کے نتیجے میں ممکنہ طور پر جس شخص کو وزیراعلیٰ بنایا جانا مقصود ہے اور بھارتی میڈیا اس کا نام کثرت سے اچھال رہا ہے اور اس کی خوب پبلسٹی کی جارہی ہے، اس کے گن گائے جارہے ہیں۔ بھارت نے کشمیر کانفرنس میں نئی حلقہ بندیوں کا بھی اشارہ دیا ہے ،جسے کشمیری قیادت نے متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے ۔ کشمیری قائدین کا کہنا ہے کہ جب پورے ملک میں حلقہ بندیوں کا عمل 2026ء میں ہونا ہے ، تو پھر کشمیر میں ہی اس قدر عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جارہا ہے ۔ کشمیر کے علاوہ آسام میں بھی نئی حلقہ بندیوں کافیصلہ کیا گیاتھا، لیکن وہاں عوامی احتجاج کے پیش نظر یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اس سارے مکروہ کھیل کے پیش نظر بھارت کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ کٹھ پتلی کشمیری قیادت کے ذریعے وادی میں الیکشن کرواکرکشمیر کی تین حصوں میں تقسیم کے فیصلے پر مہر ثبت کروالے …بھارت کی خوش بیانیاں اورخوش گمانیاں اپنی جگہ، لیکن زمینی حقائق بھارت کیلئے سازگار نہیں ہیں،کیونکہ کشمیری عوام صرف حریت کانفرنس کی آواز پر ہی لبیک کہتے ہیں۔وہ شہادتیں قبول کرتے ہیں ، سینوں پہ گولیاں کھاتے ہیں،بھارتی فوج کے ٹارچرسیلوں میں ٹارچر برداشت کرتے ہیں ، مگر ان کے پائے استقلال میں ذرہ بھر لغزش نہیں آتی ۔کشمیری خواتین کی عصمتیں برباد کی جاتی ہیں۔ پیلٹ گنوں سے معصوم کشمیری بچوں کی بینائی چھین لی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کی فاشسٹ فوج کشمیریوں کی آنکھوں میں جلنے والے آزادی وحریت کے دیپ گل کرنے میں مکمل طور پرناکام ہوچکی ہے ۔کشمیری عوام بھارتی شکنجے سے آزاد ہونے کی آرزئوں سے سرشار ہیں اور وہ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘کو بہرصورت عملی جامہ پہنانے کی خاطر اپنا خون بہانے کیلئے بھی ہروقت تیار رہتے ہیں۔