منگل ‘ 23؍ذی الحج‘ 1442ھ‘ 3؍ اگست 2021ء
آبی تنازعات پر ڈیڈ لاک ختم۔ بھارتی وفد جلد پاکستان آئے گا: مہر علی شاہ
شکر ہے ورنہ ہم کیا کرسکتے تھے۔ آج تک ہم نے بھارت کی طرف سے آبی تنازعات پر صرف ڈیڈ لاک کا ہی مژدہ سنا ہے۔ اس ڈیڈ لاک کا ڈرامہ ہو یا بات چیت کی فلم۔ دونوں صورتوں میں بھارت نے ہی فائدہ اٹھایا۔ چپکے چپکے نہیں کھلم کھلا ہمارے حصہ کے دریائوں پر متعدد ڈیم بنا لئے حالانکہ اس کی اجازت نہیں تھی مگر چونکہ ہم نے اپنے دریائوں پر منگلا، تربیلا اور وارسک کے علاوہ کوئی ڈیم نہیں بنایا اس لئے بھارت نے انڈس واٹر کمشن کی ترجیحات کے مطابق اپنے علاقے میں ان دریائوںپر ڈیم بنا کر جہلم اور چناب کو بھی ندی نالے میں تبدیل کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر ہم جاگ رہے ہوتے تو ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بناسکتے تھے۔ مگر افسوس ہم خواب غفلت سے بیدار ہونے کا نام نہیں لیتے۔ پس مرگ واویلا پر یقین رکھتے ہیں ۔ جب بھارت ہمارے دریائوں پر پے در پے ڈیم بنا سکتا ہے تو ہم قانونی طور پر سندھ، چناب اور جہلم پر ڈیم کیوں نہیں بنا سکے ہمیں کس نے روکا تھا۔ اس کا کوئی جواب ہے کسی کے پاس۔ اب ہم روتے پھرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بھارت اپنے حصے کے دریائوں میں وہ پانی بھی روک دیتا ہے جو قانوناً جاری رہنا چاہئے۔ مگر ہم اس کیخلاف بھی کوئی بات کرنے یا ایکشن لینے میں ناکام ہیں۔ ہاں جب بھارت میں سیلاب آئے تو وہ بیاس، ستلج اور راوی میں پانی چھوڑ دیتا ہے۔ یوں ہم سیلاب میں ڈوب جاتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے نئے ڈیموں کے علاوہ دریائوں کے کنارے بڑے بڑے آبی ذخائر بنائے ہوتے جہاں یہ سیلابی پانی جمع ہوتا تو ہم سیلابوں سے بچ سکتے تھے۔ اب بھارتی وفد آئے گا مون سون کی معلومات کے تبادلے پر باتیں کرکے چلا جائے گا اور ہم ڈیڈ لاک کے خاتمے کی خوشی میں ہی نہال ہوتے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭
زرداری اور بلاول نے مجھ پر حملہ کرایا: حلیم عادل شیخ
بیان پڑھیں تو یوں لگتا ہے گویا شیخ جی پرزبردست حملہ ہوا، فائرنگ ہوئی۔ ان کی گاڑی کو گھیرے میں لے کر پتھرائو کیا گیا گاڑی کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا صاف مطلب قاتلانہ حملہ ہوتاہے۔ جس کیخلاف ایکشن لینا ضروری ہے مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما کے دورہ نواب شاہ میں ان کا قافلہ زرداری ہائوس کے قریب سے گزرا تو پولیس کے مطابق ان کی گاڑی پر دو عدد انڈے پھینکے گئے۔ ان میں سے شاید ایک ہی نشانے پر لگا، دوسرا نشانہ چوک گیا۔اس کے علاوہ ان کی گاڑی پر چلائی گئی کسی گولی کا خول، پتھروں کے نشانات نہیں ملے مگر حلیم عادل شیخ بضد ہیں کہ ان پر حملہ زرداری ہائوس سے کیا گیا۔ اب اس موقع پر وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری بھلا کیوں خاموش رہتے۔ انہوں نے بھی اس گرما گرم معاملے میں انٹری ڈالتے ہوئے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ یوں اس معاملے پر پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی اے والے اب خوب گرجیں گے اور برسیں گے۔یوں سندھ کے سیاسی مطلع پر اختلافی گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بیان بازی ہوگی۔ جس کا حاصل وصول کچھ نہیں بس کارکنوں کو اشتعال دلانا اور ان کا لہو گرم رکھنا ہوگا۔ پی پی والے ہوں یا پی ٹی آئی والے۔ رہنمائوں کا کبھی کچھ نہیں جاتا باہمی سر پھٹول سے صرف کارکنوں کا ہی نقصان ہوتا ہے اس لئے کم از کم انہیں خود ہی محتاط رہنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭
جرائم کی دنیا میں خوبرو لڑکیوں کے گینگ سر گرم
ُیہ جدید دور ہے جرائم کی واردات کے طریقے بھی بدل گئے ہیں۔ اب ضروری نہیں کہ ہاتھ میں بندوق ہو یا گینگ بنا کر واردات کی جائے۔ پہلے جرائم پیشہ لوگ خوبرو عورتوں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے تھے۔ ان کے ذریعے اپنے شکار کو پھانستے تھے اور انہیں لوٹا جاتا تھا یا قتل کیا جاتا تھا۔ مگر جوں جوں وقت بدلتا گیا خواتین میں بھی شعور بیدار ہونے لگا تو جہاں وہ دیگر معاملات میں مردوں کی ہمسری کے دعوے کرنے لگیں، ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ دکھائی دینے لگیں تو منفی ذہنیت رکھنے والی عورتوں نے اس میدان میں بھی اپنا سکہ جمانا شروع کردیا ہے۔ اب کئی معروف خوبصورت اداکارائیں اور ماڈلز ہی نہیں، نامعلوم عورتیں بھی ڈکیتی، بلیک میلنگ ، چوری، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور قتل کی وارداتوں میں بھی نام کما رہی ہیں اور خوب مال بھی بنا رہی ہیں پہلے صرف کام والیوں یا گھر پر دستک دے کر چوری و ڈاکہ ڈالنے والیوں کا تذکرہ سننے کو ملتا تھا۔ اب منشیات فروش سے لے کر اسلحہ سمگلنگ تک میں یہ صنف نازک پیش پیش نظر آتی ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ ان کے مؤثر ترین ہتھیار ہیںجس کو وہ بخوبی استعمال کررہی ہیں اس کے ساتھ بااثر افراد کی سرپرستی نے انہیں اور نڈر بنا دیا ہے ۔خوبصورت ادائوںاور ناز نخروں کا شکار ہونے والے شرمندگی کی وجہ سے اپنے ساتھ ہونے والی واردات کو طشت ازبام بھی نہیں کرتے اور رسوائی کے ڈر سے چپ رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
عوام کم کھانا کھائیں تو غذائی درآمدات ختم ہوسکتی ہیں: معاون خصوصی وزیراعظم
خدا جانے جمشید چیمہ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ بے شک پاکستان غدائی درآمدات پر کثیر سرمایہ خرچ کرتا ہے مگر اس کی وجہ کیا ہے ۔ صرف عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنا مناسب نہیں۔ انہیں کم کھانا کھانے کا مشورہ دینا آسان ہے مگر کیا صرف عوام کے کم کھانے سے یہ بیرون ملک سے منگوائی جانے والی اشیائے خوردونوش بندہوجائیں گی؟ یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ باہر سے کھانے پینے کی جوا شیاء آتی ہیں وہ امراء اوراشرافیہ کا طبقہ استعمال کرتا ہے۔ اربوں روپے کا بوجھ ان کی عیاشیوں کی وجہ سے ملکی خزانے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ غریب بے چارہ تو وہی کچھ کھاتا پیتا ہے جو ملک میں پیدا ہوتا ہے، وہ غیرملکی آٹا، چاول، سبزیاں ، گوشت، دالیں نہیں کھاتا نہ ہی فاسٹ فوڈ یا ڈبہ بند غیرملکی غذا استعمال کرتا ہے۔ جتنا یہ امرا بڑے بڑے ہوٹلوں میں یا اپنی تقریبات میں کھانے پر خرچ کرتے ہیں اتنا تو پورے ملک کے غریبوں کا ماہانہ کھانے کا خرچہ نہیںہوتا ہے۔ جتنا یہ امراء کھانا ضائع کرتے ہیں اس سے ہزاروں غریبوں کا پیٹ بھر سکتا ہے۔ مگر کیا کریں جو بھی آتا ہے وہ غریبوں کو بھاشن دے کر چلا جاتا ہے جبکہ غریبوں کو بھاشن کی نہیں راشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ غذائی اجناس میں خودکفیل رہنے والا یہ خطہ جو کبھی سونے کی چڑیا کہلاتا تھا آج اپنے باسیوں کا بھی پیٹ بھرنے سے قاصر ہے۔ زراعت کو منظم طریقے سے تباہ کیا گیا۔ زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا کر انہیں ختم کیا جارہا ہے۔ یاد رکھیں لوگوں کو کم کھانے کا مشورہ دینا ظلم ہے پاکستان میں پہلے ہی کم غذا کے باعث بچوں اور خواتین کی شرح اموات زیادہ ہے اسے اور نہ بڑھائیں۔
٭٭٭٭٭