سلامتی کونسل کی بھارتی صدارت اور کشمیر قراردادیں
بھارت نے گزشتہ روز ایک ماہ کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال لی ہے۔ انگریزی حروف تہجی کے لحاظ سے ہر رکن ملک ایک ماہ کیلئے سلامتی کونسل کی صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔ دریں اثناء خارجہ پاکستان کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے کہا کہ ’’امید ہے بھارت سلامتی کونسل کی صدارت کی اقدار کی پاسداری اور قواعد کا احترام کرے گا۔ بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی ذمہ داری یاد کرائیں گے۔‘‘
اقوام متحدہ کے مستقل رکن ملکوں کو چاہئے کہ سلامتی کونسل کی صدارت (خواہ وہ ایک مہینے کیلئے ہی کیوں نہ ہو) کسی ملک کو سونپتے وقت اس ملک کے اندر انسانی حقوق کی صورتحال کا ضرور جائزہ لیا جائے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو آگ اور خون کا کھیل پون صدی سے جاری رکھا ہوا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اقوام متحدہ بھی پوری طرح باخبر ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کی قراردادوں کا بھارت نے کس طرح مذاق اڑایا ہے اور پوری مقبوضہ وادی میں آبادی سے زیادہ فوج تعینات کرکے کس طرح اس کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے 729 دن سے بدترین کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ اسی طرح بھارت کے اندر بھی مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ کہیں ’’گائو کی ذبیح‘‘ اور کہیں کوئی اور بہانہ بنا کر مسلمانوں پر ستم ڈھائے جا رہے ہیں۔ تشدد کیا جا رہا ہے، داڑھیاں نوچی جا رہی ہیں، املاک کو جلایا جا رہا ہے، اذان اور نماز سے روکا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارت کو سلامتی کونسل کی صدارت سونپنا بندر کے ہاتھ ماچس دینے یا گیدڑ کو کچروں کا رکھوالا بنا دینے کے ہی مترادف ہے۔ ایسی صورتحال میں کون کہے گا کہ بھارت کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل یقینی بنائے کیونکہ سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے والا بھارت وہی ہے جو کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ بھارتی درندگی سے تو بچے اور خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں، تاہم دفتر خارجہ کی جدوجہد قابل ستائش ہے اور ایسے موقع پر بھارت کو سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرانا یقینا اس کو آئینہ دکھانا ہے۔ اللہ کرے لاتوں کا بھوت باتوں سے مان جائے۔